دنیا اور آخرت

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

دنیا اور آخرت


حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے : جس شخص نے دنیا کے حصول کو ہی مقصدِ حیات بنا لیا اللہ تعالیٰ اسے جمعیتِ خاطر سے محروم کردے گا اوراس کے فقرومحتاجی کو ہر وقت اس کے سامنے رکھے گا، اوردنیا اسے اسی حدتک میسر آئے گی جو اس کے لیے مقرر کردی گئی ہے ، اور جس (خوش بخت اورسلیم الفطرت شخص)کی توجہ آخرت سنوارنے پرلگی رہی تواللہ تبارک وتعالیٰ بھی اس کے غنا اورتونگری کو اس کے دل میں پیدا کرے گا، اسے جمعیت خاطر عطاکردے گا اوردنیا ذلیل وکمتر ہوکر اس کے سامنے حاضر ہوجائے گی۔ ابودائود ، ترمذی ، ابن ماجہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں جناب رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (سورہ شوری کی )اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی ’’جو آخرت کی کھیتی چاہے ہم اس کے لیے اس کی فصل بڑھادیں گے اورجو دنیا کی پیداوار چاہے ہم اسے اس میں سے کچھ دے دیں گے، اورآخرت میں اس کا کچھ (بھی)حصہ نہیں‘‘(۰۲)پھر ارشاد فرمایا:اللہ تبارک وتعالیٰ یہ بھی ارشادفرماتا ہے : اے ابن آدم تومیری عبادت (واطاعت)کے لیے وقف ہوجا میں تیرے سینے کو غنا سے معمور کردوں گا اورتیرے فقر کو (تجھ سے )دور کردوں گابصورت دیگر میں تیرے سینے کو (بے مقصد)شغل اورغم سے بھردوں گااورتیرے فقر(کے ازالے )کا بھی کوئی بندوبست نہیں کروں گا۔ مستدرک ،الجامع الکبیر

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے جس کاایک ہی غم(رحجان طبع)رہا ،اللہ تعالیٰ اس کو دنیا کے ہر غم (کا سامنا کرنے اوراس سے نجات حاصل کرنے کے لیے)کافی ہوگا، اور جس نے بہت سے غموں کو اپنا لیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ دنیا کی کونسی وادی میں (خائب وخاسر) ہوکر ہلاک وبربارد ہوتا ہے۔ شعب الایمان  مستدرک ، نوادر الاصول : حکم ترمذی

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جس شخص کو کوئی حاجت اورضرورت درپیش ہوئی، اوراس نے اسے لوگوں کے سامنے پیش کردیا تو اس کا فقروفاقہ دورنہیں ہوگا اور (اگر)اس نے اپنی احتیاج کو اپنے خالق مالک کے حضور میں عرض کردیا تو اللہ رب العزت اس کے لئے غنا (اور کشادگی پیدا )کردے گا اورجلد ہی (امکا ن اور)امید پیدا ہوجائے اورجلد ہی وہ تونگری سے ہمکنار ہوجائے گا۔
(سنن ترمذی، الجامع الکبیر ،بیہقی ،التہذیب : ابن جریر)

Post a Comment

0 Comments