سیرت نبوی ﷺ کی روشن کرنیں....

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

سیرت نبوی ﷺ کی روشن کرنیں....

کھانا نصیب نہیں ہوا نبی اکرم ؐ حضرت ابو ایوبؓانصاری کے گھر تشریف لے گئے وہ اپنے کھجوروں کے باغ سے کھجوریں توڑ لائے اور کھانے کا سامان کیا ۔ کھانا جب سامنے آیا تو آپؐ نے ایک روٹی پر تھوڑا سا گوشت رکھ کر فرمایا کہ یہ فاطمہؓ کو بھجوادو‘ کئی روز سے اسے کھانا نصیب نہیں ہوا۔ زندگی ان کی روزمرہ کی زندگی غریبوں اور مسکینوں کی سی تھی اور ان کے ساتھ ان کو خاص طورپر محبت اور یک جہتی کا احساس ہوتا تھا‘ ہرقسم کے ہاتھ کا کام خود کرلیتے تھے۔ 

اس میں کسی طرح کی عار نہ تھی، گھر کی صفائی کرتے، مویشیوں کو چارہ ڈالتے ، بازار سے سامان خریدتے، پھٹے کپڑوں کو پیوند لگاتے، ٹوٹے جوتوں کو گانٹھتے ، نوکروں کے ساتھ بیٹھ کر اکٹھے کھاناکھاتے اور اگر بعض دفعہ کھانے کو کچھ بھی میسر نہ ہوتاتو خدا کا شکر ادا کرتے اور بھوکے ہی سوجاتے‘ کبھی کئی کئی ہفتے چولہے میں آگ نہ جلتی اور پانی اور کھجوروں پر گزارہ ہوتا۔ سادگی کا یہ عالم کھانے میں آنجناب ؐ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کی غذا عموماً جو کی روٹی ہوتی تھی اور چونکہ نبی اکرم ؐ کے یہاں چھلنی نہیں تھی ‘اس لئے اس کی بھوسی پھونک مارکر ہٹا دی جاتی تھی۔

 چنانچہ عمر بھر آپؐ نے نہ کبھی چھنے ہوئے باریک آٹے کی روٹی تناول فرمائی اور نہ ہی کبھی دسترخوان پر کھانا کھایا ‘ آپؐ نے کبھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا۔ جو کچھ موجود ہوتا تھا وہ تناول فرما لیتے تھے اور بھوک نہیں ہوتی تھی تو چھوڑ دیتے تھے۔ نصف کھجور آپؐ اپنے اہل وعیال سے زیادہ اپنی امت کی آسائش وسہولت کا خیال رکھتے تھے‘ چنانچہ لگان و خراج سے جو مال ودولت اور اشیا آپؐ کو موصول ہوتیں توآپؐ فوری طورپر لوگوں میں تقسیم کردیتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اپنے لئے کچھ نہ چھوڑتے۔

ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بسا اوقات تین تین روز تک گھر میں آگ نہ جلتی اور آل نبی ایک یا نصف کھجور کھا کر روزہ افطار کرلیتے۔ کھائیے اور کھائیے نبی ؐ کے دستر خوان پر جب کوئی مہمان ہوتا تو آپ بار بار اس سے فرماتے جاتے ، کھائیے اور کھائیے، جب مہمان خوب سیر ہوتا اور بے حد انکار کرتا تب آپ اپنے اصرار سے باز آجاتے۔ سادہ زندگی آپؐ نے بہت سادہ زندگی بسر کی اور وصال سے قبل فرمایا: ’’کہ میرے ورثاء کو میرے ترکہ میں روپیہ پیسہ کچھ نہ ملے گا۔‘‘ حقیقت میں آپؐ کے پاس دنیوی سازوسامان میں سے کچھ تھا ہی نہیں جو کسی کو دیا جاتا۔ 

حالت تو یہ تھی کہ آپؐ کی زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس 30 درہم کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی اور آپؐ کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ اسے چھڑا لیتے۔ آپؐ نے ترکہ میں صرف اپنے ہتھیار، ایک خچر اور تھوڑی سی مملوکہ زمین کے سوا کوئی چیز نہیں چھوڑی اور ان اشیا کی بابت بھی ارشاد فرمایا کہ یہ خیرات کردی جائیں۔ ٹاٹ کا ٹکڑا حضرت حفصہ ؓ فرماتی ہیں گھر میں ایک ٹاٹ کا ٹکڑا تھاجسے ہم دہرا کردیا کرتے تھے۔

 آنجنابؐ اسی پر آرام فرمایا کرتے ۔ ایک رات میں نے خیال کیا کہ اگر اس کی چارتہیں کردیں تو غالباً آپؐ کو زیادہ آرام ملے گا۔ چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا ۔ جب صبح ہوئی تو آپؐ نے پوچھا:’’رات کو تم نے میرے لیے کیا بچھایا تھا‘‘؟ میں نے کہا:’’وہی آپؐ کا ٹاٹ تھا ، مگر اس کی چارتہیں کردی تھیںتاکہ آپؐ بہتر طریقے سے آرام کرسکیں۔‘‘ آپ ؐ نے فرمایا : ’’نہیں !اسے تو جیسا پہلے تھا ویسا ہی کردو۔ اس نے مجھے نماز شب سے بازرکھا۔‘‘ خدا کا شکر گزار آپؐ راتوں کو اتنی دیرتک نماز میں کھڑے رہتے تھے کہ پائوں مبارک پر ورم آجاتا تھا‘ یہ دیکھ کر بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہؐ ! آپؐ کی مغفرت تو خدا کرچکا ہے۔ اب آپ ؐ کیوں یہ زحمت اٹھاتے ہیں؟‘‘ ارشاد ہوا: ’’کیا میں خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں ‘‘ رونا آتا ہے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے دودھ شریک بھائی مسروق ان کے پاس آئے۔ حضرت عائشہؓ نے کھانا منگوایا اور فرمانے لگیں : ’’ جب سیر ہو کرکھانا کھاتی ہوں تو مجھے رونا آتا ہے۔‘‘انہوں نے پوچھا کہ کیوں؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ مجھے آپؐ کا زمانہ یاد آ جاتا ہے کہ جب تک رسول اللہؐ حیات رہے ،خدا گواہ ہے کہ کبھی ایک دن میں دوبار سیر ہو کر روٹی نہیں کھائی اور بعض دفعہ گھر میں پورا مہینہ آگ نہیں جلتی تھی اور ہم صرف کھجوروں اور پانی پر گزارا کرتے تھے۔

 یہ دعا کرتے ایک مرتبہ آپؐ نے ایک پرانے پالان پر حج کیا اور اس پالان پر ایک کملی تھی جو بہت ہی معمولی قیمت یعنی چار درہم کی بھی نہ تھی۔ اس پر بھی یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! اس کو ایسا حج (مبرور) بنا جس میں نمائش اورقصدِ شہرت نہ ہو۔ 30 دن رات حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ پیغمبر خداؐنے فرمایا کہ ایک بار مجھ پر 30 دن رات اس حالت میں گزرے کہ میرے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی جس کو کوئی جاندار کھا سکے‘ سوائے اتنی قلیل مقدار کے جوبلالؓ بغل میں دبائے رہتے تھے۔ 

آپؐ کے پاس کبھی صبح یا شام کا کھانا جمع نہیں ہوا کہ کھانے سے کھانے والے بھی زیادہ ہوئے۔ مستقل مزاج اور قوی القلب حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ ’’جب لڑائی شدت کی ہوتی تھی اور جوش و محنت سے آنکھیں سرخ ہو جاتی تھیں تو ہم آنحضرتؐ کی آڑ لیتے تھے اور ہم میں سے کوئی آدمی دشمن سے آپؐ سے زیادہ قریب نہ ہوتا تھا اور میں نے جنگ بدر میں اپنے آپ کو دیکھا کہ ہم آپؐ ہی کی پناہ ڈھونڈتے تھے اور آپؐ اس دن سب سے زیادہ مستقل مزاج اور قوی القلب تھے۔‘‘ سات دینار حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’ایک دفعہ آپ ؐ بڑے اداس اور غمگیں گھر تشریف لائے۔‘‘ میں نے سبب دریافت کیاتو فرمایا:’’ ام سلمہؓ! کل جو سات دینار آئے تھے۔ شام ہوگئی اور وہ بستر پر پڑے رہ گئے۔‘‘ پانی کے سوا اور کچھ نہیں ایک مرتبہ نبیؐ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا !یا رسول اللہ ؐ! میں بھوک سے بے تاب ہوں۔ آپؐ نے اپنی کسی بیوی کے ہاں پیغام بھیجاکہ کھانے کے لئے جو کچھ موجود ہو‘ بھیج دو۔

 جواب آیا: اس خدا کی قسم جس نے آپؐ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ یہاں تو پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ پھر آپؐ نے دوسری بیوی کے ہاں معلوم کیا تو وہاں سے بھی یہی جواب آیا۔ یہاں تک کہ آپؐ نے ایک ایک کرکے اپنے تمام گھروں سے پتہ کیا تو سب کے ہاں سے اسی طرح کا جواب آیا۔اب آپؐ اپنے صحابہ ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’ آج رات کیلئے اس مہمان کی میزبانی کون قبول کرتا ہے؟‘‘ ایک انصاری نے کہا : ’’یا رسول اللہؐ! میں قبول کرتا ہوں۔‘‘ یہ انصاری ان کو اپنے گھر لے گئے اور گھرجا کر بیوی کو بتایا کہ میرے ساتھ رسول اللہ ؐ کے مہمان ہیں‘ ان کی خاطر داری کرو۔ بیوی نے کہا:’’ اس وقت تو گھر میں صرف بچوں کیلئے کھانا ہے۔‘‘ صحابیؓ نے کہا:’’ بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تاکہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی کھانے میں شریک ہیں۔‘‘اس طرح مہمان نے تو پیٹ بھر کرکھانا کھایا اور گھر والوں نے ساری رات فاقے سے گزاری۔ 

صبح جب صحابیؓ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے دیکھتے ہی فرمایا:’’ تم دونوں نے رات مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا‘ وہ خدا کو بہت ہی پسند آیا۔‘‘ مجھے اس پر فخر نہیں رسولؐ کو اپنی زندگی میں وہ بڑی سے بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں جو اس آسمان کے نیچے نوع انسان کے کسی فرد کو حاصل نہیں ہوسکتی تھیں تاہم آپؐ کے آئینہ دل میں کبھی فخر و غرور نے اپنا عکس نہیں ڈالا۔ 

آپؐ نے فرمایا:’’ میں آدم کے بیٹوں کا سردار ہوں، لیکن مجھے اس پر فخر نہیں۔‘‘ وفا کریں گے عین میدان جنگ میں حضرت حذیفہؓ اور ابو حسل صحابیؓ شرکت جہاد کے لیے پہنچتے ہیں مگر جب آنحضرتؐ کے پاس حاضر ہوتے ہیں تو راستے میں پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں عرض کرتے ہیں کہ راستے میں کفار نے روکا کہ تم محمدؐ کی امداد کو جارہے ہو۔ ہم نے انکار کیا اور ان سے وعدہ کیا کہ ہم جنگ میں شریک نہ ہوں گے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا :’’تم دونوں کو وعدہ کے مطابق جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو صرف خدا کی مدد کافی ہے اور بس۔‘‘ پیار کرتے اپنے بچوں کے لیے بھی حضورؐ کے جذبات بڑے گہرے تھے۔

 حضرت ابراہیم کورضاعت (پرورش) کے لیے ایک لوہار کے گھر میں مدینہ کے بالائی مقام پرر کھا گیا تھا۔ آپؐ اپنے صاحبزادے کو دیکھنے کیلئے خاصا طویل فاصلہ چل کر تشریف لے جاتے‘ اس لوہار کے گھر میں کام کی وجہ سے بہت دھواں بھرا ہوتا مگر نبیؐ وہاں دیر تک بیٹھتے اور بچے کو گود میں لے کر پیار کرتے۔ یہ امتیاز پسند نہیں ایک سفر میں کھانا تیار نہ تھا‘تمام صحابہؓ نے مل کر کھانا پکانے کا سامان کیا۔ تمام صحابہؓ نے کام تقسیم کرکے اپنے اپنے ذمے لے لیے۔ جنگل سے لکڑیاں لانے کا کام آپ نے اپنے ذمہ لے لیا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ’’آپؐ تکلیف نہ کریں۔ ہم سب اس کام کے لیے کافی ہیں۔فرمایا:’’ یہ سچ ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ اپنے آپؐ کو سب ساتھیوں سے ممتاز بنا لوں، مجھے یہ امتیاز پسند نہیں۔ خدا اس بات کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘ یہ کہہ کر آپؐ لکڑیاں لینے تشریف لے گئے۔

 اخلاق کریمانہ ایک روز ایک اجنبی شخص رسول اللہؐ کے پاس آیا، رسول خدا نے اسے کھانا کھلایا اور رات گزارنے کے لیے بستر بھی دیا‘ وہ کوئی نادان دشمن تھا۔ اس نے بستر خراب کردیا اور علی الصبح چلا گیا، وہ اللہ کے رسولؐ سے اپنی قدیمی دشمنی کا انتقام لینا چاہتا تھا،‘کچھ دور جا کر اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی تلوار تو رسول اللہؐ کے گھر میں ہی چھوڑ آیا ہے۔ چنانچہ واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اللہ کا رسولؐ اسی بستر کو اپنے دستِ مبارک سے دھو رہا ہے۔ جب رسول پاکؐ نے مہمان کو دیکھا تو انہوں نے اس کی تلوار اٹھا کر اس کے حوالے کردی اور اس اجنبی کی ملامت تک نہ کی۔ 

اکھڑ بدو پر حضورؐ کے ان اخلاق کریمانہ کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے رسول اللہ ؐسے معافی طلب کی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ تین دن سے آپؐ کے مبعوث ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ عبداللہ ؓ ابن ابی لحما نے نبی کریمؐ سے خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کیا تھا۔ کچھ معاملہ باقی تھا۔ انہوں نے آپؐ سے کہا کہ آپؐ یہیں ٹھہریں‘میں ابھی آتا ہوں۔ اتفاق سے وہ بھول گیا اور تیسرے دن جب یاد آیا تو وہ وعدہ والی جگہ پر فوراً پہنچا تو آنحضرتؐ کو اسی جگہ منتظر پایا۔ لیکن اس خلاف وعدہ سے آپؐ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا۔ صرف اسی قدر فرمایا کہ تم نے مجھے زحمت دی۔ میں اس مقام پر تین دن سے موجود ہوں۔ 

کون مسکین ہے آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’مسکین وہ نہیں ہے جس کو ایک دو لقمے دربدر پھرایا کرتے ہیں۔‘‘ صحابہؓ نے دریافت کیا :’’پھر کون مسکین ہے؟‘‘ ارشاد ہوا ’’وہ جس کو حاجت ہے لیکن اس کا پتہ نہیں چلتا اور وہ کسی سے مانگتا نہیں۔‘‘ چنانچہ فقرا اور مساکین میں سے ان لوگوں پر جو بے حیائی کے ساتھ دربدر بھیک مانگتے پھرتے ہیں‘ ان کو ترجیح دی گئی ہے جو فقر و فاقہ کی ہر قسم کی تکلیف گوارا کرتے ہیںلیکن اپنی عزت و آبرو اور خودداری کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ گھر نہیں جاسکتا ایک دفعہ فدک سے چار اونٹوں پر غلہ لد کر آیا‘ کچھ قرض تھا وہ ادا کیا گیا‘ کچھ لوگوں کو دے دیا گیا۔ حضرت بلالؓ سے دریافت کیا گیا کہ بچ تو نہیں گیا۔ عرض کیا:’’ اب کوئی لینے والا نہیں‘ اس لیے کچھ بچ رہا۔‘‘ فرمایا:’’ جب تک دنیا کا یہ مال باقی ہے میں گھر نہیں جا سکتا۔ چنانچہ رات مسجد میں بسر کی۔ صبح کو حضرت بلالؓ نے آکر بشارت دی کہ ’’یا رسول اللہؐ جو کچھ تھا ‘وہ تقسیم ہوگیا۔‘‘ آپؐ نے خدا کا شکر ادا کیا۔ 

اپنے لیے کچھ نہیں رسول اکرمؐ کا عمل یہ رہا کہ جو کچھ آیا خدا کی راہ میں خرچ ہوگیا۔ غزوات اور فتوحات کی وجہ سے مال و اسباب کی کمی نہ تھی مگر وہ سب غیروں کیلئے تھا۔ اپنے لیے کچھ نہ تھا، صرف فقرو فاقہ ہی تھا۔ فتح خیبر کے بعد یعنی 7ھ سے یہ معمول تھا کہ سال بھر کے خرچ کے لیے تمام ازدواج مطہراتؓ کو غلہ تقسیم کردیا جاتا تھا مگر سال تمام بھی نہ ہونے پاتا تھا کہ غلہ ختم ہوجاتا تھا اور فاقے پر فاقہ شروع ہوجاتا تھا کیونکہ غلے کا بڑا حصہ ضرورت مندوں کی نذر کردیا جاتا تھا۔ عار نہ تھا سواریوں میں نبی اکرمؐ کو گدھے پر سوار ہونے سے عار نہ تھا‘چنانچہ آپؐ فتح خیبر کے دن گدھے پر سوار تھے جس کی لگام کھجور کی چھال کی تھی۔ انسؓ سے روایت ہے کہ:’’آپؐ حج کے لیے تشریف لے گئے تو آپؐ کے اونٹ کا پالان پرانا تھا جس کی قیمت ہمارے خیال میں چار درہم (ایک روپے) سے زیادہ نہ ہوگی۔‘‘ پتھر دل موم ہو جاتے آپؐ کا طریقہ دعوت و تبلیغ یہ بھی تھا کہ آپؐ قرآنی آیات ایسے موثر لہجہ میں تلاوت فرماتے تھے کہ پتھر دل موم ہو جاتے تھے۔ 

بہت سے لوگوں کے دلوں میں آپؐ کی تلاوت کے اثر سے اسلام اتر گیا۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ بن مظعون، حضرت ارقمؓ بن ابی الارقم، حضرت ابو عبیدہؓ بن الحارثؓ اور کئی دوسرے صحابہؓ آپؐ کی زبان مبارک سے قرآن سن کر مسلمان ہوئے۔ تلاوتِ قرآن کے وقت حضرات صحابہؓ پر عجیب رقت کا عالم طاری ہو جاتا تھا۔ قرآنِ حکیم نے ان الفاظ میں اس کا نقشہ کھینچا: ’’اللہ کے کلام سے ان لوگوں کے جسم کانپ اٹھتے ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں پھر ان کے جسم اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف پھر جاتے ہیں۔‘‘ (الزمر۔ 23) چیتھڑے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے:’’ ہم چھ آدمی رسول اکرمؐ کے ہمراہ ایک لڑائی کے لیے نکلے۔ ہم سب کے پاس ایک ہی اونٹ تھا۔ باری باری سے سوار ہوتے، چلتے چلتے پائوں پھٹ گئے اور میرے تو ایک پائوں سے خون بھی بہنے لگا۔ آخر کیا کرتے ‘اپنے پائوں پر پرانے کپڑے (چیتھڑے) لپیٹ لیے۔ اس وجہ سے اس لڑائی کو ذات الرقاع کہا جاتا ہے یعنی چیتھڑے والی لڑائی کہ پیروں پر چیتھڑے باندھے تھے۔ ‘‘ محبت بھرا سلوک ایک نوعمر عرب لڑکا مکہ کی منڈی میں غلام کی حیثیت سے فروخت ہوا۔ اس کا نام زید بن حارث تھا اور اس کا تعلق شمالی عرب کے ایک بڑے قبیلہ کلب سے تھا۔ 

اس لڑکے کو بنو کلب کے ایک ہمسایہ قبیلہ نے ایک تصادم کے دوران گرفتار کر لیا اور مکہ لا کر فروخت کر دیا۔ یہ لڑکا بڑا حسین اور دانشمند تھا۔ بی بی خدیجہؓ نے اسے خرید لیا اورشوہر کی خدمت میں بطور ذاتی ملازم کے پیش کیا۔ اس لڑکے کا غمزدہ باپ جو اپنے قبیلے کا سردار تھا، بیٹے کی تلاش میں دور دور تک مارا مارا پھرتا رہا اور بالآخر اسے معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بھاری رقم لے کر مکہ پہنچا تاکہ زرِ فدیہ ادا کرکے بچے کو آزاد کرائے۔ جب وہ رسول اللہؐ سے ملا تو حضورؐ اس کی دردناک کہانی سے بہت متاثر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا:’’ بچے کو یوں واپس خریدنے کی بجائے ایک اور بہتر طریقہ بھی ہے‘ وہ یہ کہ میں خود بچے سے پوچھ لیتا ہوں۔

 اگر وہ آپ کے ساتھ جانا چاہے تو آپ ایک کوڑی ادا کیے بغیر اپنے بیٹے کو لے جا سکتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہؐ نے زید کو بلایا‘ وہ فوراً حاضر خدمت ہوئے اور اپنے باپ کو پہچان لیا۔ جب رسول اللہؐ نے زید سے واپس جانے کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بلا توقف جواب دیا۔ ’’آپؐ نے مجھ سے جومحبت بھرا سلوک کیا ہے‘ اس کے بعد میں آپؐ کے ہاں بطور غلام رہنے کو اپنے باپ کے گھر بطور آقا زندگی گزارنے پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘آپؐ اس رقت انگیز جواب سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور سرعام اعلان کیا: ’’میں زید کو آزاد کرتا ہوں اور آج سے اسے گود لیتا ہوں۔‘‘زید کے والد اگرچہ خالی ہاتھ لوٹے مگر ان کا دل اپنے بیٹے کی پرورش کے ضمن میں اطمینان سے پر تھا۔

 (میاں عابد علی کی کتاب ’’شانِ محمدؐ‘‘سے انتخاب)

Post a Comment

0 Comments