آج امت مسلمہ پر بڑا کڑا وقت آگیا ہے۔ ہر جانب خونِ مسلم کی ارزانی ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی کا فقدان ہے اور ہر شخص بد دلی و مایوسی کا شکار ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوگئی ہے اور یہ مٹھی بھر اشرافیہ مال مست اور نشے میں مخمور ہے۔ عام آدمی مایوس اور پریشان ہے۔ ایسے میں بندۂ مومن کے لئے رسولِ رحمتؐ کی حیاتِ طیبہ کی روشنی تاریک ماحول کو منور کرسکتی ہے۔ آپؐ پر مشکلات کے پہاڑ توڑے گئے مگر آپؐ کبھی بد دل اور مایوس نہ ہوئے۔ یہ مضمون آج کے پر آشوب حالات میں اہل ایمان کے لئے ہمت و حوصلے کا باعث بنتا ہے۔
اس عالم رنگ وبو میں خالق کائنات نے انسان کو اپنا خلیفہ اور نائب بنایا اور اس کے ذمے یہ کام لگا کہ وہ اللہ اور صرف اللہ کی بندگی اختیار کرے گا۔ ساری مخلوق اس کے لئے مسخر کی گئی اور اسے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا پابند بنایا گیا۔ انسان کا مقصدِ حیات رضائے الٰہی اور فلاح اخروی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ انسان اپنے اس مقصد سے عموماً دور بھاگتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ’’وَقَلِیْلٌ مِنْ عِبَادِیْ الشَّکُور۔ اورمیرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں۔‘‘ (السباء:13) ۔
جو مخلص اہلِ ایمان اللہ کی رضا اور اس کے دین کے غلبے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں، ان کے سامنے مشکلات، آزمایش وابتلا اور کٹھن مراحل کا آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ اس قافلے کو اپنے عظیم مقاصد کے حصول کی خاطر جان کی بازی بھی لگانا پڑتی ہے اور قیدوبند، دارورسن کے علاوہ بھوک، خوف اور نقصانِ اموال کی منزلوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کمزور ہے، اسے حوصلہ پانے کے لئے کوئی سہارا درکار ہوتا ہے۔ اللہ کی ذات ہی اصل سہارا ہے اور نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی ایمان افروز زندگیاں اس کو استقامت وعزیمت کی راہ دکھلاتی ہیں۔ آج امت پر انتہائی کڑا وقت آن پڑا ہے۔ ان پرآشوب حالات میں سیرت رسولؐ کا مطالعہ محض روایتی انداز میں نہیں بلکہ اس کی حقیقی روح کے ساتھ ضروری ہے۔
دنیا میں ہر عظیم مقصدتک پہنچنا عظیم قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے ہی میں ممکن ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو فریضہ سونپا گیا تھا وہ بہت مشکل تھا۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنا اور باطل کے ہر جھنڈے کو سرنگو ں کردینا، اللہ کی شریعت کا نفاذ اور ادیانِ باطلہ کو شکست سے دوچار کردینا بعثتِ رسولؐ کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ اس مقصد کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن پاک میں تین مرتبہ ایک ہی انداز اور یکساں الفاظ میں اسے دھرایا گیا ہے۔ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنََ۔ ( التوبہ:۳۳) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(سورۂ الفتح آیت نمبر28 اور سورۂ الصف آیت نمبر۹ بھی اسی موضوع پر ہیں)۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے مطابق مکہ اور اس کے گرد ونواح میں دعوت دین کا کام شروع کیا تو جاہلی معاشرے میں ہل چل مچ گئی، جیسے آپ نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔ آپؐ کی مخالفت میں قریش کے تمام سردار اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور تو اور آپؐ کا حقیقی چچا ابولہب ان سب سے آگے آگے تھا۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے کا ہرحربہ اختیار کرتا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اپنے مکان کی چھت سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں غلاظت پھینکنے سے بھی باز نہ آتا۔کبھی کبھار تو ہنڈیا پک رہی ہوتی تو بدبخت اوپر سے غلاظت پھینک دیتا۔
ابولہب کے علاوہ آپ کے دیگر پڑوسی بھی اسی قماش کے لوگ تھے، مثلاً عقبہ بن ابی معیط، حَکم بن عاص اور عدی بن حمراء۔ ان سب کی حرکات بھی ابولہب کی طرح ہی کی تھیں۔ یہ کس قدر اذیت ناک بات تھی اس کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی ہمت ہاری اورنہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات کہی جو آپؐ کے شایان شان نہ ہو۔ آپؐ اتنا فرماتے:’’ اے بنو عبدمناف تم کیسے ہمسائے ہو، کیا ہمسائیگی اسی کو کہتے ہیں؟‘‘ ۔ تفہیم القرآن،ج6،دیباچہ سورۂ اللہب، ص111۔ بحوالہ بیہقی، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ابن عساکر، ابن ہشام
اس سارے عرصے اور مشکل منزلوں میں آپؐ کی سرپرستی کا حق آپؐ کے چچا جنابِ ابوطالب نے خوب ادا کیا۔ ہرچند کہ انھوں نے اسلام تو قبول نہ کیا،مگر اپنے بھتیجے کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے رہے۔ شعب ابی طالب میں بھی انھوں نے آپؐ کا ساتھ دیا، جہاں تین سال اہلِ ایمان اور بنوہاشم کو (ماسوائے ابولہب اور اس کے اہل وعیال کے) مقید رکھا گیا۔ اس دور کی تلخ یادیں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہ بھولیں، حتیّٰ کہ فتح مکہ کے وقت بھی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اس گھاٹی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ اے جابر! تمھیں معلوم ہے کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟ جب انھوں نے لاعلمی ظاہر کی تو آپؐ نے فرمایا : ’’یہ شعب ابی طالب ہے، جہاں ہم لوگوں کو تین سال تک مقید رکھا گیا۔ ہمارے بچے بھوک سے بلبلاتے رہے، ماؤں کی چھاتیوں میں دودھ تک خشک ہوگئے تھے اور ہم لوگ درختوں کے پتے اور چھال کھانے پر مجبور کردیے گئے تھے۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ المجلد الاول، ص507
ان سخت آزمایشوں میں بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ آپؐ نہ صرف خود ڈٹے رہے بلکہ تمام اہلِ ایمان کو بھی حوصلہ دیتے رہے۔ اس سب کچھ کے ساتھ وہ واقعہ بھی اپنی جگہ بڑا ایمان افروز ہے، جب قریش کے سرداروں نے ایک قومی وفد بنا کر آپؐ کے چچا ابوطالب کے پاس بھیجا اور کہا کہ تمھارے بھتیجے نے گھر گھر میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس کام کو چھوڑ دے اور اس کے بدلے میں ہم اس کے ہر مطالبے کو پورا کردیں گے۔ اس پر جناب ابوطالب نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور سردارانِ قریش کی پیش کش آپؐ کی خدمت میں رکھی۔
آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’اُرِیْدُ مِنْھُمْ کَلِمَۃً وَاحِدَۃً یَقُوْلُوْنَھَا تَدِیْنُ لَھُمْ بِھَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّی اِلَیْھِمْ بِھَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ۔ چچا جان! میں تو ان کے سامنے ایک ایسا کلمہ پیش کرتا ہوں کہ اسے تسلیم کرلیں تو سارے عرب ان کے مطیعِ فرمان ہوجائیں اور پورا عجم ان کو جزیہ دینے لگے۔‘‘ جب آپؐ نے ان کے سامنے کلمۂ طیبہ رکھا تو سب نے انکار کردیا۔ پھر آپؐ نے اپنے چچاسے کہا: ’’چچا جان ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لا کر رکھ دیں اور مجھ سے کہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تو میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا۔
یا تو اللہ اس دین کو غالب کردے یا میں اس راستے میں اپنی جان قربان کردوں گا۔‘‘(سیرت ابن ہشام، ج2،ص101۔البدایۃ والنہایۃ المجلد الاول، ص484۔485)۔دیگر کئی مواقع پر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مشکل ترین حالات میں بارہا یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو ضرور غالب کرے گا۔ حضرت مقداد بن اسودؓ کی روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا: ’’ کرۂ ارض پر کوئی پکا اور کچا گھر گھروندہ، کوئی چمڑے اور اون کا خیمہ ایسا نہیں ہوگا جس میں یہ دین داخل نہ ہو۔عزت والے عزت کے ساتھ اس میں داخل ہوں گے اور انکار کرنے والوں کو بھی آخر ذلت کے ساتھ اس میں آنا پڑے گا۔‘‘ (مسنداحمد، ج6،ص4)۔
حضرت خدیجہؓ اور جناب ابوطالب سن10نبوی میں وفات پاگئے۔ اس سال کو عام الحزن کہا جاتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں شخصیات سے بے پناہ محبت تھی اور دونوں نے آپؐ کے مشن میں آپؐ کا ساتھ نبھانے کا حق بھی بطریق احسن ادا کیا۔ غم کے باوجود آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم ہمت ہار کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ مکہ سے ذرا فاصلے پر عرب کے دوسرے بڑے شہر طائف کا دعوتی سفر اختیار کیا۔ طائف میں آپؐ کی دعوت ووعظ کو سن کر وہاں کے ظالم لوگوں نے آپؐ پر ہر جانب سے پتھر برسانا شروع کردیے۔ یہ واقعہ بہت مشہور ہے جسے ہر مسلمان جانتا ہے۔ حضرت زید بن حارثہؓ جو رفیق سفر تھے، آپؐ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر شہر سے باہر لائے۔
آپؐ کو بری طرح زخمی کیا گیا تھا اور آپؐ بے ہوش بھی ہوگئے تھے۔ حضرت زید بن حارثہؓ نے چشمے کے پانی سے آپؐ پر چھینٹے ڈالے تو آپؐ ہوش میں آئے۔ وادئ نخلہ کی وہ رات بڑی یادگار تھی جب اچانک آپؐ کے پاس حضرت جبریل اور پہاڑوں کا نگران فرشتہ حاضر ہوئے اور آپ کو سلام عرض کرنے کے بعد اجازت چاہی کہ اہلِ طائف کو اس ظلم وسفاکی کی پاداش میں دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے، مگر آپ نے فرمایا: ’’نہیں ہرگز نہیں۔ میں ان لوگوں کی تباہی کے لئے کیوں دعا کروں اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے تو کیا ہوا؟ امید ہے کہ ان کی آیندہ نسلیں ضرور ایک اللہ پر ایمان لے آئیں گی۔‘‘ تاریخ طبری،ج2، ص345
اس رات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا مانگی وہ بھی بہت عظیم ہے: اَللّٰہُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ بَثِّیْ وَحُزْنِیْ وَضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ ۔ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّیْ اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ اِلٰی بَعِیدٍ ۔۔۔۔۔۔وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِکَ۔ الٰہی میں اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں کی تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں۔
تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، درماندہ عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے۔ مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے، کیا بیگانہ ترش رُوکے یا اس دشمن کے جو میرے معاملات پر قابو رکھتا ہے، لیکن مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں، کیونکہ تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے، میں تیری ذات کے نور کی پناہ چاہتا ہوں، جس سے سب تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دنیا ودین کے کام اس سے ٹھیک ہوجاتے ہیں، میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر اترے یا تیری نارضامندی مجھ پر وارد ہو۔ مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت، مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے۔ (صحیح مسلم، عن عائشہؓ، کتاب الجہاد والسیر، حدیث 1795، رحمۃ للعالمینؐ،ج۱،ص74، از قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری، مطبوعہ ادارہ، معارف اسلامی،لاہور)
حافظ محمد ادریس
0 Comments