موجودہ دور کو ’انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور‘ کہا جاتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت ہی گلوبل ویلیج یعنی عالمی گائوں کی اصطلاح عام ہوئی۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہی کمال ہے کہ آج ساری دنیا آپس میں اتنی مربوط ہوچکی ہے کہ جس کے متعلق چند سال قبل تک سوچنا بھی محال تھا۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ جدید دور کی دو ایسی ایجادات ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں اطلاعات اور معلومات کی رسائی کا وہ انقلاب برپا کیا ہے جس کی کوئی مثال موجودہ جدید دور میں ملنا مشکل ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کی ترقی اور استعمال کے اثرات ہمارے ہاں بھی پہنچ چکے ہیں۔
زندگی کی تمام اہم اشیا کی طرح انٹرنیٹ اور موبائل فون کے استعمال کے بھی جہاں بے پناہ فوائد اور ثمرات ہیں وہاں کئی پہلوئوں سے ان کے استعمال کو نقصان دہ اور ضرر رساں بھی سمجھا جاتا ہے۔ بالخصوص نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور بے راہ روی کا سبب کئی دیگر معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور موبائل کے بے جا اور غیر ضروری استعمال کو تصور کیا جاتا ہے۔
غالباً یہی وہ احساس ہے جس نے چند روز قبل پشاور کے چند اعلیٰ پڑھے لکھے والدین کو ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینے پر مجبور کیاجس کے ذریعے وہ نوجوان نسل کو غیر اخلاقی سرگرمیوں اور بے راہ روی سے بچانے اور اس ضمن میں والدین اور نوجوانوں میں شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے ایک منظم پلیٹ فارم تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے۔ اس نیک مقصد کا حصول چونکہ کسی فردِ واحد یا چند منتشر افراد کے بس کی بات نہیں تھی اس لیے ان چند لوگوں نے اپنے حلقہ اثر کو وسیع کرتے ہوئے اس نیک کام کا آغاز کر نے سے پہلے ’’آگاہی ‘‘کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ آگاہی کے روحِ رواں انجینئر محمد بشیر صاحب ہیں جو پیشے کے لحاظ الیکٹریکل انجینئر ہیں۔ انجینئر محمد بشیر نے آگاہی کے نام سے جس فلاحی اور اصلاحی کام کا آغاز کیا ہے اس میں انہیں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد مثلاً ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسروں، صحافیوں اور بعض کاروباری حضرات کی بھرپور سرپرستی اور تعاون حاصل ہے۔ آگاہی نے اپنی سرگرمیوں کاآغاز گزشتہ دنوں اسلامک سینٹر جامعہ پشاور میں ’’موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال اور نقصانات‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کے انعقاد سے کیا جس کے مہمان خصوصی جامعہ زرعیہ پشاور کے وائس چانسلر اور معروف زرعی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد سواتی تھے۔
صدارت کے فرائض اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر اور معروف مذہبی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان نے انجام دیے۔جب کہ دیگر مقررین میں الفوز اکیڈمی اسلام آباد کے ڈائریکٹر انجینئرمحمد خان منہاس، آگاہی کے چیئرمین انجینئر محمد بشیر اور امریکہ میں مقیم معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر انوارلحق شامل تھے۔
انجینئر محمد خان منہاس نے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن پر ’’قرآن و حدیث کی روشنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت ‘‘پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے معاشرتی انحطاط اور ہمارے نوجوانوں کی بے راہ روی کا بنیادی سبب دینی تعلیمات سے دو ری ہے۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسوۂ حسنہ کو بطور رول ماڈل پیش کرتے ہوئے بھی آپؐ کی تعلیمات کی پیروی کرنی چاہیے اور اپنے بچوں اور نوجوان نسل کو بھی حکمت و دانائی سے اس بات کی ترغیب دینی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ بلوغت کا دور بچوں کی نگہداشت اور تربیت کا خصوصی متقاضی ہوتا ہے۔ یہی وہ خطرناک عمر ہے جس میں کسی بھی بچے کے بگڑنے اور سدھرنے کے یکساں امکانات ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس عمر میں بچوں کی دلچسپیوں اور ان کے مشاغل پر خصوصی نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر انوارالحق نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون اِس زمانے کی سب سے خطرناک ایجادات ہیں۔ ان کی مثال اس نشتر جیسی ہے جو اگر کسی ماہر سرجن کے ہاتھ میں ہو تو شفایابی اور فلاح کی علامت ہے، اور اگر یہی نشتر کسی چور اور ڈاکو کے ہاتھ میں چلا جائے تو پھر یہ نقصان اور خطرے کا باعث بن جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت 30 ملین افراد انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں، جب کہ سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سائٹس کا تعلق فحاشی اور عریانی سے ہے جو پوری انسانیت اور بالخصوص مسلم معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں فحش سائٹس کی روک تھام اور ان سے نوجوان نسل کو بچانے کا کوئی مؤثر اور منظم میکنزم موجود نہیں ہے جو پوری قوم کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ امریکہ اور یورپ میں کل بجٹ کا 30 سے 35 فیصد حصہ ٹیکنالوجی کی ترقی پر خرچ کیا جاتا ہے، جب کہ تمام اسلامی ممالک میں یہ شرح بمشکل ایک تا 5 فیصد ہے۔ پاکستان جیسے مذہبی روایتی معاشرے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال پوری قوم کو ایک بڑی آزمائش سے دوچار کرسکتا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل کا غلط استعمال زیادہ تر نوجوان رات کی تاریکی اور تنہائی میں کرتے ہیں۔
اکثر نوجوان جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں، رات بھر موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے جہاں مخرب الاخلاق سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں وہاں ان منفی سرگرمیوں کے ذریعے آج کی نوجوان نسل کا قیمتی وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتیں بھی بے دریغ ضائع ہورہی ہیں۔ مغربی معاشرہ مادرپدر آزادی کے منحوس چکر میں جس طرح گھن کی طرح پس رہا ہے اس کا خمیازہ وہ اخلاقی زوال کی صورت میں بھگت رہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ظہوراحمد سواتی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا کا حسین ترین خطہ ہے، اس خطے کو قدرت نے بے پناہ وسائل سے نواز اہے۔یہاں کی بہادر اور قابل افرادی قوت اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ اس ملک کے معاشرتی مسائل کی جڑ ناخواندگی اور ناقص نظام تعلیم ہے۔ انھوں نے کہا کہ نوجون موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال سے مغربی تہذیب کی جانب مائل ہورہے ہیں جس سے نئی نسل کے اپنی تہذیب اور دین سے بیزار اور دور ہونے کا خدشہ ہے۔ اگر ہمارے نوجوان موبائل کا مثبت استعمال شروع کردیں تو ہمیں اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کا مثبت اور تعمیری استعمال بلاشبہ مفید اور وقت کی ضرورت ہے، لیکن ان کے غلط اور منفی استعمال کو کسی بھی طور پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
موبائل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانون سازی لازماً ہونی چاہیے لیکن صرف قانون سازی سے کام نہیں چلے گا بلکہ ہمیں اپنے رویوں اور کردار میں بھی تبدیلی لانی ہوگی۔
موبائل فون اور انٹرنیٹ کا مثبت اور تعمیری استعمال بلاشبہ مفید اور وقت کی ضرورت ہے لیکن اس کے غلط اور منفی استعمال کو کسی بھی طور پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ بظاہر بہت اہم ضرورت نظر آنے والی ان دونوں سہولیات کے استعمال کے وقت یہ فیصلہ کرنا کہ وہ کون سا وقت ہے جب ان کا استعمال درست اور جائز ہوجاتاہے اور فلاں مواقع پر ان کا استعمال غلط اور ناجائز ہے؟ اس کا تعین شاید میچور اور پختہ کار افراد کے لیے توکرنا قدرے آسان اور ممکن ہوگا لیکن نابالغ اور نوجوانی کی دہلیز پر تازہ تازہ قدم رکھنے والی نئی نسل کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل فون کے منفی پہلوئوں اور منفی استعمال سے بغیر کسی نگرانی کے بچنا تقریباً ناممکن ہے۔
اس نازک مسئلے سے نمٹنے کی آخری ذمہ داری والدین، اساتذہ، میڈیا اور بحیثیتِ مجموعی سارے معاشرے پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی مستقبل کی نسل کو اخلاقی اور معاشرتی انحطاط کے گہرے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے کس حد تک سنجیدگی اور عملی سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ’’آگاہی‘‘ نے مذکورہ سیمینار جس میں بڑی تعداد میں والدین اور طلبہ و طالبات شریک ہو ئے، کا انعقاد کرکے جس اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اس پروہ نہ صرف مبارک باد کے مستحق ہیں بلکہ توقع کی جانی چاہیے کہ یہ تعمیری سلسلہ آئندہ بھی اسی جذبے اور جوش وخروش سے جاری رکھا جائے گا۔
عالمگیر آفریدی
0 Comments