دنیا میں حلال فوڈ کی مقبولیت......

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

دنیا میں حلال فوڈ کی مقبولیت......


حلال فوڈ سے مراد محض چکن اور بیف ہی نہیں بلکہ حلال فوڈ میں سروسز (خدمات)، مشروبات، کاسمیٹکس، فارماسیوٹیکلز، پرفیوم حتیٰ کہ چاول، پانی، پولٹری خوراک، چمڑے اور ٹیکسٹائل مصنوعات بھی شامل ہیں جن کی تیاری کے عمل میں استعمال کئے جانیوالے تمام کیمیکل اور Additives میں اسلامی نکتہ نظر کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس دوران کوئی حرام عنصر شامل نہ ہو۔ حلال ایک اسلامی قدر (Value) ہے جس کی رو سے مصنوعات کی فنانسنگ، سورسنگ، پروسیسنگ، اسٹوریج اور مارکیٹنگ میں حرام عنصر یا عمل کی ممانعت ہے۔ دنیا میں اس وقت 25 ممالک میں حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن کے 200 سے زائد ادارے قائم ہیں جہاں حلال سرٹیفکیشن جاری کرتے وقت پروڈکٹ کے اجزاء اور پروسیس کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ کچھ ماہ قبل ایک سیمینار میں ملائیشیا کے IHIA کے سربراہ درہم دلی ہاشم نے مجھے بتایا کہ آر او (RO) پلانٹ کے ذریعے تیار کئے جانے والے منرل واٹر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی آمیزش بھی کی جاتی ہے جو کئی ذرائع سے حاصل ہوتی ہے جن میں ہڈیاں بھی شامل ہیں اور اگر یہ ہڈیاں خنزیر (سور) کی ہوں تو یہ پروسیس حلال کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسی طرح چاول کی پولشنگ کے لئے استعمال ہونے والے کیمیکلز کے بارے میں بھی یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ ان میں ایسا کوئی عنصر شامل نہ ہو جو حرام اشیاء سے حاصل کیا گیا ہو جبکہ لیدر مصنوعات اور ڈینم جینز کی تیاری میں ایسے کیمیکلز استعمال کئے جاتے ہیں جو سور کی چربی سے تیار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پرفیومز میں عموماً الکوحل (ایتھانول) استعمال ہوتا ہے جو شرعی اعتبار سے حلال نہیں جبکہ یورپ میں چاکلیٹ اور میک اپ مصنوعات کی تیاری میں %80 فیصد سْور کی چربی استعمال ہوتی ہے۔

جانوروں کو ذبح کرنے کے معاملے پر بھی دنیا میں مختلف طریقے رائج ہیں۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں جانوروں کو الیکٹرک گن سے ہلاک کیا جاتا ہے لیکن فرانس میں مسلمانوں اور یہودیوں کو اپنے جانور چھری سے ذبح کرنے کی اجازت ہے۔ حال ہی میں ایک فرانسیسی مسلمان مصنف نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ یورپ میں جانور کو ذبح کرتے وقت ایک لمبی چین پر لٹکا دیا جاتا ہے اور جب چھری جانور کے سامنے پہنچتی ہے تو ریکارڈ شدہ تکبیر کی آواز میں جانور کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ مصنف کے بقول ذبح کرنے کا یہ طریقہ غیر اسلامی ہے کیونکہ جانور کو ذبح کرتے وقت تکبیر کہنے کے لئے وہاں کسی مسلمان کا ہونا لازمی ہے۔

 انہوں نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ جانوروں کو اسلامی طریقے سے ذبح کرنے سے اُن سے خارج ہونے والے خون اور فاسد مادے کی وجہ سے گوشت حفظان صحت کے مطابق ہو جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس جانوروں کو الیکٹرک گن سے ہلاک کرنے کی صورت میں خون اور فاسد مادے جانور کے جسم میں ہی رہ جاتے ہیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ورلڈ حلال فورم کی حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا میں حلال فوڈ کی سالانہ تجارت 650 ارب ڈالر سے زائد ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا کی مجموعی حلال مارکیٹ تقریباً ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جس کے 80 فیصد کاروبار پر غیر مسلم ممالک کا کنٹرول ہے جن میں امریکہ، برازیل، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فرانس شامل ہیں جو حلال فوڈ برآمد کرنے والے بڑے ممالک شمار کئے جاتے ہیں جبکہ ایشیاء میں حلال فوڈ برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھائی لینڈ ہے جس کے بعد بالترتیب فلپائن، ملائیشیاء، انڈونیشیاء، سنگا پور اور بھارت حلال فوڈ برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار کئے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صرف یورپی ممالک میں حلال ٹریڈ کا حجم سالانہ 66 ارب ڈالر سے زائد ہے جس میں فرانس کی 17ارب ڈالر اور برطانیہ کی 600 ملین ڈالر کی ٹریڈ شامل ہیں جبکہ امریکہ کی حلال فوڈ ٹریڈ 13 ارب ڈالر ہے۔ برازیل دنیا میں حلال منجمد چکن برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو 100 سے زائد ممالک کو 10 لاکھ میٹرک ٹن حلال منجمد چکن برآمد کرتا ہے جبکہ فرانس سالانہ ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن حلال منجمد چکن سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ اسی طرح امریکہ دنیا میں بیف کا تیسرا بڑا ایکسپورٹر ہے جس کی حلال بیف کی برآمدات% 80 جبکہ نیوزی لینڈ بیف کا چوتھا بڑا ایکسپورٹر ہے جس کی بیف کی برآمدات %40 ہیں۔ خلیجی ممالک گوشت کی ضروریات پوری کرنے کے لئے سالانہ 44 ارب ڈالر کا حلال فوڈ امپورٹ کرتے ہیں جنہیں سب سے زیادہ یعنی %54 گوشت برازیل فراہم کرتا ہے جبکہ گاؤ ماتا کی پوجا کرنے والا ملک بھارت خلیجی ممالک کو %11 فیصد گوشت فراہم کرتا ہے تاہم گزشتہ کچھ ماہ سے سعودی عرب نے یورپ سے حلال گوشت درآمد کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے کیونکہ 8 یورپی ممالک سے گائے کے نام پر بھیجے جانے والے گوشت تجزیہ کرنے پرگھوڑے کا گوشت ثابت ہوئے تھے۔

اسی طرح انڈونیشیا کو سب سے زیادہ بیف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سپلائی کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلم امہ کے دوسرے بڑے اسلامی ملک پاکستان کی حلال ٹریڈ صرف 100 ملین ڈالر سالانہ ہے جو دنیا کی حلال مارکیٹ کا صرف 2.9 فیصد ہے حالانکہ پاکستان دنیا میں گوشت کی پیداوار میں سولہواں بڑا ملک ہے۔ لائیو اسٹاک کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں گائے اور بیل کی تعداد تقریباً 3 کروڑ، بھینسوں کی تعداد پونے تین کروڑ، بھیڑوں کی تعداد ڈھائی کروڑ، بکروں کی تعداد ساڑھے پانچ کروڑ اور اونٹوں کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے۔ سروے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم بھی حلال فوڈ کی انٹرنیشنل سرٹیفکیشن کا حصہ بن جائیں تو اس سے اربوں ڈالر سالانہ کماسکتے ہیں لیکن ہم ابھی تک ’’حلال پاکستان برانڈ‘‘ کو صحیح معنوں میں متعارف نہیں کراسکے حالانکہ 2011ء میں پاکستان حلال پروڈکٹ ڈیولپمنٹ بورڈ کے قیام کی منظوری دی جاچکی ہے۔حلال فوڈ کے بعد اب دنیا مسلمان مسافروں اور سیاحوں کی اربوں ڈالر کی مسلم ٹریول مارکیٹ کے بزنس کو فوکس کر رہی ہے کیونکہ دنیا میں ابھی تک ہوٹلوں، ایئرلائنز اور ٹور آپریٹرز نے مسلم سیاحوں کو اُن کی ضروریات کے مطابق خاطر خواہ سہولتیں فراہم نہیں کی ہیں۔

اس سلسلے میں OIC کے اسلامک فنانس کے سربراہ رشدی صدیقی اور مسلم طرز زندگی ٹریول مارکیٹ اسٹڈی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق گزشتہ سال مسلم ٹریولر جن میں ملائیشیا، ترکی اور عرب امارات سرفہرست ہیں، نے ٹریولنگ پر 130 ارب ڈالر خرچ کئے جو دنیا کی مجموعی ٹریولنگ کا %13 ہے اور یہ 2020ء تک بڑھ کر 200 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، ایران، انڈونیشیا، کویت، مصر، قطر، امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے مسلم ٹریولر بھی قابل ذکر ہیں جن کی اہم ضروریات میں کھانے پینے کی حلال اشیاء کی دستیابی، نماز کی ادائیگی کے لئے سہولتیں، مسلم بیت الخلا اور ان کی رہائش کے ارد گرد غیر اخلاقی سرگرمیوں کا نہ ہونا شامل ہے لیکن ان میں سب سے اہم معاملہ ایئرلائنز اور ہوٹلوں میں حلال فوڈ کی دستیابی ہے کیونکہ کوئی بھی مسلمان حلال فوڈ پر کسی طرح سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میں پاکستان میں یمن کے مریضوں کے لئے مسلم ہیلتھ ٹورازم متعارف کرا چکا ہوں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم امہ کی حلال فوڈ اور سروس کی بڑی مارکیٹ کے پوٹینشل کے پیش نظر مسلم امہ میں ’’حلال پاکستان برانڈ‘‘ موثر حکمت عملی کے تحت متعارف کرایا جائے۔

اشتیاق بیگ
 

Post a Comment

0 Comments