ایک سال شہر دمشق میں ایسا خوفناک قحط پڑا کہ لوگ بھوک سے مرنے لگے۔ خشک سالی نے ہر کسی کو پیٹ کی فکر میں ایسا مبتلا کیا کہ لوگ عشق و عاشقی بھول گئے۔ بارش بالکل نہ برسی، حتیٰ کہ کھیتوں اور نخلستانوں کے بیل بوٹے مرجھا گئے، یتیموں کے آنسوئوں کے سوا ہر پانی سوکھ گیا، تمام چشمے بے آب ہوگئے، گھروں سے لوگوں کی آہوں کے دھویں نکلا کرتے تھے۔ درختوں کے پتّے جھڑ گئے اور وہ ٹنڈمنڈ اور تہی دست نظر آنے لگے۔ بڑے بڑے پہلوانوں اور طاقت وروں کو بھوک نے نڈھال اور عاجز کردیا۔ اس خشک سالی میں جب میرا دوست مجھ سے ملنے آیا تو میں نے دیکھا کہ بھوک نے اس کا سارا گوشت گھلا دیا ہے اور کھال ہڈیوں سے چپک گئی ہے۔
اس کا یہ حال دیکھ کر مجھے سخت تعجب ہوا۔ یہ اچھا خاصا صاحبِ ثروت آدمی تھا۔ جب میں نے اس کا حال پوچھا تو وہ غضبناک لہجے میں بولا:
’’بے وقوف تجھے معلوم نہیں کہ خشک سالی نے لوگوں کو کن مشکلات میں پھنسا دیا ہے۔ بھوک حد سے گزر چکی ہے، اللہ تعالیٰ بھی اب ہماری فریاد نہیں سنتا، نہ ہی بارش برساتا ہے۔‘‘
میں نے جواب میں کہا: ’’یہ ساری باتیں تو مفلوک الحال لوگوں کے بارے میں ہیں، لیکن تُو خوشحال اور تونگر ہے، جب تیرے پاس مال کا تریاق موجود ہے تو قحط سالی کے زہر سے تیرا کیا واسطہ! جیسے سیلاب آجائے تو بطخ کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا نہ وہ پریشان ہوتی ہے کیونکہ اسے تیرنا آتا ہے۔‘‘
میری بات سن کر وہ مجھے اس طرح حقارت سے دیکھنے لگا جیسے کسی عالم کو جاہل سے واسطہ پڑ گیا ہو۔ پھر کہنے لگا: ’’آدمی تو وہ ہے جو دوسروں کی تکلیف دیکھ کر بے تاب ہوجائے، اگر دوست ڈوب رہا ہو تو اس دوست کو کیسے قرار آسکتا ہے جو کنارے پر کھڑا ہو! میرا چہرہ جو تجھے زرد نظر آرہا ہے وہ میری اپنی بھوک کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ دوسرے بھوکوں کے احساس کی وجہ سے ہے۔‘‘
0 Comments