آنحضرتؐ بحیثیت سپہ سالار

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

آنحضرتؐ بحیثیت سپہ سالار


 

قارئین قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے مضبوط عسکری قوت کا تصور جدید نہیں اس نے آج سے 1400 سو سال قبل اس وقت جنم لیا تھا جب ہمارے نبی کریمؐ نے مکہ سے ہجرت کے بعد مدینہ میں ایک نئی ریاست قائم کی۔ رسول کریمؐ کا کسی سے کوئی جھگڑا تھا نہ مدینہ کی ریاست کے کسی دوسری ریاست کے خلاف کوئی جارحانہ عزائم تھے لیکن نبی کریمؐ کی عسکری بصیرت کا یہ کمال تھا کہ انہوں نے دفاعی جنگوں کیلئے نہ صرف فوجی لشکر کھڑے کئے بلکہ آپؐ نے اُن کی افرادی اور اجتماعی تربیت کا بندوبست بھی کیا۔ آج کی اکیسویں صدی کا اہل بصیرت سپہ سالار بیٹل لڑے بغیر اسی طرح جنگ جیتنا چاہتا ہے جیسے صلح حدیبیہ کے بعد نبی کریمؐ نے مکہ فتح کیا۔ جنگِ بدر میں گھوڑ سواروں، نیزہ برداروں اور پیادہ فوج کو یہ تربیت دی گئی کہ صف بندی کیسے کی جائے گی۔ گھوڑ سوار، نیزہ باز اور پیدل فوجی کس ترتیب میں کہاں کھڑے ہوں گے۔ 

بدر کا میدانِ جنگ بھی اس لئے چُنا گیا چونکہ اس کے قریب پانی کے ذخائر موجود تھے۔ جنگی حالات میں مخالف افواج میدان میں موجود اونچی پہاڑیوں پر قابض ہونے کی کوشش کرتی ہیں چونکہ پہاڑی کی چوٹیاں عسکری اعتبار سے بہترین دفاعی مورچے سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسرائیل شام کی سرحد پر اورگولان کی پہاڑیوں پر قابض ہے۔ بھارت سیاچن گلیشیر کے علاقے میں سولتارو پہاڑی سلسلے پر چڑھ دوڑا۔ پاکستان نے بھی اُن پہاڑیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جو مقبوضہ کشمیر کے قصبے کارگل کے بالکل سامنے ہیں۔ یہ تصور بھی ہمارے پیارے نبیؐ نے اس وقت دیا جب آپؐ نے جنگِ اُحد میں اپنا مورچہ اُحد کے پہاڑوں پر بنایا اور دروں پر فوجی تعینات کئے۔

آج کے جدید دور میں سراغ رسانی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ دشمن کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اس مقصد کے حصول کیلئے انسانوں، الیکٹرانک، انٹیلی جنس اور سیٹلائٹس کا استعمال ہوتا ہے۔ آج سے 1400 سال پہلے جب قریش کے جنگجو مدینہ پر حملے کی تیاری کر رہے تھے تو نبی کریمؐ نے اُن کی ساری حرکات پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ ذبح کئے جانے والے 10 اونٹوں سے رسول کریمؐ نے یہ اندازہ لگا لیا کہ دشمن کے لشکر کی تعداد تقریباً ایک ہزار ہو گی۔ خندق کی جنگ میں ایک مصنوعی رکاوٹ کھود کر دشمن کی یلغار کو روکا گیا تو 1400 سال بعد اسرائیل نے مصر کے حملوں کو روکنے کیلئے نہر سویز کے کنارے پر دفاعی مورچوں سے لیس ایک بند بنایا جسے بارلیو لائن کہا گیا۔ 1940ء میں فرانس نے جرمن کا حملہ روکنے کیلئے اسی طرح کی رکاوٹ بنائی جسے مجینو لائن کہا گیا۔ اسی طرح معاشی ناکہ بندی کیلئے آج کے جدید دور میں اپنی مخالف قوتوں کو لڑے بغیر شکست دینے کیلئے آپ ان کی سپلائی لائنز کو کاٹتے ہیں۔ سابقہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کیلئے ہندوستان نے آبنائے بنگال میں پاکستانی بحری جہازوں کی ناکہ بندی کی۔ چین کی معاشی ترسیل روکنے کیلئے امریکہ ایشیا پیسفک ریجن اور خصوصاً چین کے جنوبی سمندر میں مورچہ بندی کر رہا ہے۔ یہ تصور بھی نبی کریمؐ کی عسکری بصیرت سے اس وقت اُجاگر ہُوا جب آپؐ نے اہل مکہ خصوصاً قریش قبیلہ کے شام کے ساتھ تجارتی روابط کے راستوں کو کاٹنا شروع کیا۔

ربیع الاول کے بابرکت مہینے میں رسول کریمؐ کی سیرت پر بہت سارے کالم لکھے گئے اورآپؐ کی شخصیت بحیثیت منصف، ناظم، امیر، والد، خاوند اور ریفارمر بہت تبصرے ہوئے۔ بہت کم لوگوں نے نبی کریمؐ کی شخصیت پر بحیثیت سپہ سالار یا فوجی جرنیل تبصرہ کیا۔ آج کے کالم میں مَیں نے ’’آنحضرت بحیثیت سپہ سالار‘‘ پر کچھ لکھنے کی عاجزانہ جسارت کی ہے۔ اس موضوع پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ قارئین ایک عسکری سالار کا سب سے مؤثر ہتھیار اس کی سپاہ کی تعداد یا اس کے ہاتھ میں جدید اسلحہ نہیں بلکہ سالار کی اپنی شخصیت اور کردار ہیں۔ نبی کریمؐ چونکہ ایک بلند پائے کے اعلیٰ ترین بشر یا انسان تھے اس لئے آپؐ ایک قابلِ فخر چوٹی کے سالار بھی تھے۔ اللہ کے ہر بندے کوآپؐ کی تقلید کرنی چاہئے اور آپؐکی تعلیمات پر چلنا چاہئے۔

کالم کا اختتام میں حضرت ابو ہریرہؓ کی اس روایت سے کر رہا ہوں جس میں انہوں نے بتایا کہ نبی کریمؐ نے اُن کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کو مندرجہ ذیل چیزوں کا حکم فرمایا ہے -1 میں کھلے اور چھپے ہر حال میں اللہ سے ڈروں -2 کسی سے ناراض ہوں یا خوش ہر حالت میں انصاف کروں -3 چاہے امیر ہوں یا فقیر، ہر حالت میں راستی اور اعتدال پر قائم رہوں -4 جو مجھ سے کٹے ہیں ان سے جُڑوں -5 جو مجھے محروم کرے میں اس کو دوں -6 جو مجھ سے زیادتی کرے میں اس کو معاف کر دو ں-7 میری خاموشی غور و فکر کی خاموشی ہو -8 میری نگاہِ عبرت کی نگاہ ہو -9 میری گفتگو ذکر الٰہی کی گفتگو ہو۔ ایک اچھا انسان اور بہترین سپہ سالار بننے کیلئے یہی رختِ سفر ہے۔

 


Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments