سعودی عرب میں ایک سابق حکومتی عہدے دار نے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے دور میں خود کے حجرہِ نبویﷺ میں داخل ہونے کا قصہ بیان کیا ہے۔ سعودی شہری شیخ عائض بن عمر الرویس نے انکشاف کیا ہے کہ مملکت کے سابق فرماں روا شاہ فیصل نے ایک مرتبہ حجرہ نبوی ﷺ کے اندر کی زیارت کی تو انہیں وہاں لوہے کے بنے ہوئے صندوق نظر آئے جن کے بارے میں علم نہیں تھا کہ ان کے اندر کیا ہے۔ یوٹیوب پر نشر کی جانے والی وڈیو میں شیخ الرویس نے واضح کیا کہ "شاہ فیصل نے اس موقع پر صندوقوں کے اندر موجود اشیاء کے بارے میں پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ تُرکوں کے زمانے سے یہاں موجود ہیں اور ان کے اندر موجود اشیاء کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
اس پر شاہ فیصل نے حکم دیا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ان دو صندوقوں سمیت حجرہ نبوی ﷺ کے اندر موجود اشیاء کا جائزہ لے اور ان اشیاء کی فہرست تیار کرے۔ کمیٹی میں وزارت اوقاف ، وزارت مالیات اور نگرانی کے محکمہ کے اہل کاروں کو شامل کیا گیا"۔ شیخ الرویس نے بتایا کہ " میں کمیٹی میں وزارت مالیات کی نمائندگی کر رہا تھا۔ طے یہ ہوا کہ ہم عشاء کی نماز کے بعد حجرہ نبوی ﷺ کا دورہ کریں گے جب کچھ دیر بعد مسجد نبوی کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور حجرے کے پہرے دار آ جاتے ہیں۔ ہم جواہرات اور آثاریات کے ماہرین کی موجودگی میں تمام اشیاء کی فہرست تیار کریں گے۔ پہلے صندوق کا معائنہ کیا گیا تو اس میں سونے کی چھوٹی اینٹیں اور زیورات پائے گئے۔ دوسرے صندوق میں چاندی کی زنجیریں ملیں جو حرمِ مکی میں اور خانہ کعبہ پر لٹکائی جاتی تھیں۔ ان کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص بعض خطوط بھی تھے"۔
شیخ الرویس کے مطابق حجرے کی اشیاء کا معائنہ اور ان کی فہرست کی تیاری کا کام 15 روز تک جاری رہا۔ ایک دل چسپ امر سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان عبدالمجید کی بیٹی کے زیورات کی موجودگی تھی جس نے مدینہ منورہ کے دورے کے موقع پر ان زیورات کو شادی شدہ خواتین کے لیے وقف کے طور پر رکھوا دیا تھا۔ شیخ الرویس نے بتایا کہ کام کی تکمیل کے بعد تشکیل کردہ کمیٹی کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات یہ تھیں :
"مدینہ منورہ کے لیے مختص زیورات کو مدینے کے میوزیم میں محفوظ کیا جائے۔ آثارِ عامہ کو وزارت تعلیم کے زیر انتظام آثاریات کے تحت محفوظ کیا جائے۔ علاوہ ازیں دیگر جواہرات ، سونے اور چاندی کو وزارت مالیات اور مالیاتی ادارے کے حوالے کیا جائے تا کہ انہیں چوری کیے جانے یا لُوٹے جانے کا کوئی خطرہ نہ ہو۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ - مريم الجابر
0 Comments