اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو پھیلانے کی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے جزیرہ عرب سے باہر بادشاہوں اور فرماں رواؤں کو متعدد خطوط ارسال کیے جن میں انہیں اسلام کی دعوت دی گئی۔ یہ تحریریں لوگوں تک دین کی دعوت پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ تھیں۔ ہجرت کے چھٹے برس قریش اور مسلمانوں کے درمیان پُر امن دورانیے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت جانا اور اسے اسلام کی بین الاقوامیت کے واسطے استعمال فرمایا۔
اللہ کے نبی نے مصر کے حکم راں مقوقس کو تحریر فرمایا " بسم الله الرحمن الرحيم ... اللہ کے رسول محمد کی جانب سے قِبطیوں کے عظیم مقوقس کو... سلام ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ بعد ازاں میں تم کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کر لو امان پاؤ گے۔ تم کو اللہ دُہرا اجر عطا فرمائے گا لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پر اہلِ قبط کا بھی گناہ ہو گا۔ اے اہلِ کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔ اور ہم میں سے بعض ، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں۔ پس اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں"۔
یہ خط حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے مقوقس تک پہنچایا۔ تاریخی روایت میں آتا ہے کہ مقوقس نے جب خط پڑھ لیا تو حضرت حاطب سے کہا " اگر تمہارا ساتھی واقعی میں نبی ہے تو اس کو کس چیز نے اس بات سے روکا کہ وہ اُن لوگوں کے لیے بد دعا کرے جنہوں نے اُسے اُس کے وطن سے نکالا۔ اس طرح اللہ اُن لوگوں پر تکلیف مسلط کر دیتا"۔ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا " حضرت عیسی علیہ السلام کو کس چیز نے روکا تھا کہ وہ اُن لوگوں کے لیے بد دعا کرتے جنہوں نے عیسی کے قتل کے واسطے سازش تیار کی تھی۔ اس طرح اللہ اُن لوگوں پر اُس چیز کو مسلط کرتا جس کے وہ مستحق تھے؟ ... اس پر مقوقس بولا کہ " تم دانش مند ہو اور ایک صاحبِ بصیرت شخصیت کی طرف سے بھیجے گئے ہو"۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی فرمارواؤں اور بادشاہوں کو خطوط ارسال کیے۔ ان میں حبشہ کا نجاشی، روم کا ہرقل عظیم ، شاہِ فارس کِسری ، امیر بحرین منذر بن ساوی ، یمامہ کا امیر ہوذہ الحنفی ، عمان کا بادشاہ ، یمن کا حاکم اور غساسنہ کی سلطنت کا امیر شامل ہے۔ بادشاہوں اور حکم رانوں کو اسلام کی دعوت کے طور پر بھیجے گئے نبوی خطوط میں ان شخصیات کے منصبوں کے نام اور القاب و خطابات بھی نظر آتے ہیں۔ ان خطوط کے اختتام پر یہ بھی تحریر ہوتا کہ " اگر تم اس دعوت کا انکار کرو گے تو تہمارے پیروکاروں کا وبال (گناہ) بھی تمہارے سر ہو گا"۔
تاریخی روایات کے مطابق شاہِ فارس کِسری (خسرو) نے پیغمبرِ اسلام کا نامہ مبارک یہ کہہ کر چاک کر دیا تھا کہ "میری رعایا میں سے ایک غلام اپنا نام مجھ سے پہلے لکھتا ہے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی جب خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کرے"۔ پھر وہ ہی ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ کچھ عرصے بعد کسری اپنے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کی سلطنت پارہ پارہ ہو گئی۔ پیغمبرِ اسلام کی جانب سے بعض بادشاہوں اور حکم رانوں کو بھیجے گئے خطوط میں سے کچھ کو استنبول کے عجائب خانے میں محفوظ کیا گیا ہے جب کہ مدینہ منورہ میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اشیاء کی نمائش میں ان خطوط کی نقول رکھی گئی ہیں۔
0 Comments