وسعت رزق

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

وسعت رزق

اس دور میں معاشرے کا تقریباً ہر فرد ہی رزق کی تنگی سے پریشان ہے اور اس کی ساری تگ و دو حصول رزق کے لیے رہ گئی ہے۔ ہم سب رزق میں وسعت اور برکت کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگر قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ صرف دنیاوی جدوجہد، محنت اور کوشش پر انحصار کر لیتے ہیں۔ لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت اور برکت کے چند اسباب تحریر کیے جارہے ہیں تاکہ ہمیں وسعت رزق کے لیے اسلام کے راہ نما اصولوں سے آگاہی مل سکے۔ اگر ہم دنیاوی جدوجہد کے ساتھ، اِن اسباب کو بھی اختیار کر لیں، تو ﷲ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء ﷲ، جو ہر شخص کی خواہش ہے۔

استغفار و توبہ 
ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا، مفہوم: ’’پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک! وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘ (سورۂ نوح) مفسرین لکھتے ہیں کہ سورۂ نوح کی ان آیات اور سورۂ ہود کی آیات میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی مانگنے سے رزق میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے کثرت سے ﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی، ﷲ تعالیٰ اس کو ہر غم سے نجات دیں گے، ہر مشکل سے نکال دیں گے اور اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔‘‘ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند حاکم)

تقوی 
ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (ہر مشکل سے) نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سورۂ الطلاق)

ﷲ تعالی پر کامل توکل 
توکل (بھروسا) کے معنی امام غزالیؒ نے یوں لکھے ہیں: ’’توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔‘‘ (احیاء العلوم) ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ پر بھروسا رکھے، وہ اس کو کافی ہے۔‘‘ (سورۂ الطلاق) رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ’’اگر تم ﷲ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسا کرو جیسا کہ اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ) یاد رکھیں! حصولِ رزق کے لیے کوشش اور محنت کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کو بھی حصول رزق کے لیے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے۔

عبادت 
اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم دن رات مسجد میں بیٹھے رہیں اور حصول رزق کے لیے کوئی کوشش نہ کریں بلکہ ﷲ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے زندگی گزاریں۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر، میں تیرے سینے کو تونگری سے بھر دوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔‘‘
(ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد)

حج اور عمرے 
رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’پے در پے حج اور عمرے کیا کرو۔ بے شک! یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر (یعنی غریبی اور گناہوں) کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔‘‘ ( ترمذی، نسائی)

صلۂ رحمی 
رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اپنے رزق میں کشادگی چاہے، اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ (بخاری) صلۂ رحمی سے رزق میں وسعت اور کشادگی ہوتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق حدیث کی تقریباً ہر مشہور و معروف کتاب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات موجود ہیں۔

انفاق فی سبیل ﷲ 
ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، مفہوم: ’’اور تم لوگ (ﷲ کی راہ میں) جو خرچ کرو، وہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘ (سورۂ سبا) احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ ﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں ملے گا۔ دنیا میں بدلہ مختلف شکلوں میں ملے گا، جس میں ایک شکل رزق کی کشادگی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کی اولاد! تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘ (مسلم) عزیز بھائیو! جس طرح حصولِ رزق کے لیے ہم اپنی ملازمت، کاروبار اور تعلیم و تعلم میں جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں، جان و مال اور وقت کی قربانیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی روشنی میں ذکر کیے گئے اِن اسباب کو بھی اختیار کر لیں تو ﷲ تبارک و تعالیٰ ہماری روزی میں وسعت اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء ﷲ۔

ﷲ تعالیٰ ہمیں اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی  

Post a Comment

0 Comments