چھٹیاں کیسے گزاریں؟

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

چھٹیاں کیسے گزاریں؟

جس طرح دنیا بھر میں موسمی تعطیلات ہوتی ہیں اسی طرح ہمارے ملک میں بھی موسم ِگرما میں لمبی تعطیلات اور موسم ِسرما میں مختصر چھٹیاں ہوتی ہیں جن میں طلبا وقتی طور پر سکول‘ کالج اور یونیورسٹی جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے کورونا کی لہرکی وجہ سے بھی طلبا کے وقت کا ایک بڑا حصہ تعلیمی اداروں سے دور گزر رہا ہے۔ چھٹیوں کے اوقات کو طلبا اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ضائع کر بیٹھتی ہے اور بہت سے نوجوان یہ بات جاننے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہمیں چھٹیوں کو کس انداز میں گزارنا چاہیے۔ اگر تعطیلات کو اچھے انداز میں گزار لیا جائے تو انسان اس دوران بہت سے ایسے مفید کام کر سکتا ہے جن کو وہ عام ایام میں کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ تعطیلات کو بہترین انداز میں گزارنے کے لیے وقت کی درست تقسیم ضروری ہے اور اس تقسیم کی وجہ سے بہت سے مفید اُمور کو انجام دیا جا سکتا ہے جن میں سے چند اہم درج ذیل ہے:

1۔ بچوں کی تربیت کا اہتمام: پیشہ ورانہ اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو مناسب وقت دینے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بچوں کے معمولات سے بے خبر رہتے ہیں۔ بچوں کی ترجیحات اور مشاغل کو سمجھنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے والدین اور بچوں کے اوقات آپس میں مربوط نہیں ہو پاتے لیکن چھٹیوں میں اس چیز کا اہتمام کرناممکن ہو جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ گفت و شنید کو بڑھانے کی وجہ سے والدین بچوں کے فکری اور عملی ر جحانات سے واقف ہو سکتے ہیں اور بچوں کی سرگرمیوں کا صحیح طریقے سے ادراک ہو سکتا ہے ۔ اولاد کے بارے میں باخبر ہونے کی وجہ سے والدین بچوں کی احسن انداز میں تربیت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور کسی جگہ کوئی منفی رویہ یا رجحان سامنے آ رہا ہو یا بچہ منفی مشاغل اور دلچسپیوں کی طرف مائل ہو تو والدین اچھے طریقے سے اس کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ والدین اور بچوں کے درمیان ابلاغی فاصلے کا ہونا ہے۔ بہت سے بچے اپنی ذہنی اور فکری الجھنوں کے حوالے سے والدین کے سامنے اپنا مدعا رکھنے سے ہچکچاتے ہیں اور کئی مرتبہ والدین کے سامنے اپنے دل کی بات نہ رکھ پانے کی وجہ سے منفی راستوں پر چل نکلتے ہیں۔ تعطیلات کا ایک بہترین مصرف یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے معمولات سے بہترین انداز میں آگاہی حاصل کر کے ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔

2۔ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکرِ الٰہی کا اہتمام: قرآن مجید کو ویسے تو ہر روز ہی بکثرت پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے اس لیے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کی سب سے بڑی دستاویز ہے‘ لیکن فرصت کے ایام قرآن مجید سے تعلق استوار کرنے کے لیے بہترین موقع ہوتے ہیں۔ ان ایام میں بچوں اور نوجوانوں کو ناظرہ اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے ترجمے اور اس کے مفہوم کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا جا سکے۔ نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ فارغ وقت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر میں منہمک رہنا یقینا دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹنے کا سبب ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کو عقل مند قرار دیا ہے جو زمین وآسمان کی تخلیق پر غوروفکر کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کا بکثرت ذکر کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 190‘ 191 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں یقینا نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔

وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں اللہ کا کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غوروفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب نہیں پیدا کیا تو نے یہ (سب کچھ) بیکار ‘ تو پاک ہے (ہر عیب سے) پس بچا ہمیں آگ کے عذاب سے‘‘۔ 

3۔ کتب بینی: تعطیلات کا ایک اہم مصرف مطالعے کو وسعت دینا بھی ہے۔ کامیاب طلبا فقط نصابی کتب پر انحصار نہیں کرتے بلکہ دیگر کتب کا مطالعہ کر کے اپنے علم اور مطالعے میں وسعت پیدا کرتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کتب بینی سے دور ہو چکی ہے اور سنی سنائی غیر مصدقہ معلومات پر بکثرت انحصار کیا جاتا ہے جبکہ اصل مصادر کی طرف مراجعت کا رجحان دن بدن کم ہو جا رہا ہے۔ گرمیوں کی تعطیلات میں چار سے پانچ اہم کتب کا مطالعہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ چونکہ سردیوں کی تعطیلات قدرے مختصر ہوتی ہیں اس لیے ان میں کسی ایک اہم مذہبی‘ سیاسی ‘ تاریخی یا سائنسی کتاب کا مطالعہ کرنا یقینا طلبا کے مطالعے میں وسعت کا سبب بن سکتا ہے۔

4۔ ورزش کا اہتمام: مسلسل تعلیم کے بوجھ کی وجہ کئی مرتبہ محنتی طالب علم اپنی جسمانی نشوونما اور صحت سے بھی غافل ہو جاتا ہے۔ تعطیلات میں انسان کو فراغت میسر آ جاتی ہیں اور طالب علم اپنی جسمانی صحت پر توجہ دے کر اپنے آپ کو ایک بہتر اور طاقتور انسان میں تبدیل کر سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ مفید سماجی کارکن کے طور پر معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ 

5۔ اہل ِعلم کی صحبت کو اختیار کرنا: تعلیمی سرگرمیوں کے دوران مختلف فنون کے ماہرین کی صحبت کو اختیار کرنا انسان کے لیے کافی مشکل ہو جاتا ہے لیکن تعطیلات میں مختلف علوم کے ماہرین تک رسائی حاصل کرنا ‘ ان کی صحبت میں وقت کو گزارنا‘ ان کے لیکچرز کو سننا اوران کی فکری اور علمی گفتگو سے مفید معلومات کو اخذ کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؛ چنانچہ مستقبل میں علمی ترقی کا ذوق رکھنے والے طلبا فارغ وقت کو ضائع کرنے کی بجائے اپنے وقت کا ایک حصہ اہلِ علم ودانش کی صحبت میں گزار کر فکری اور ذہنی نشوونما کے مراحل کو طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ بہت سے طلبا میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ وہ کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر ہونے والی ان اہم تقریبات میں ذوق اور شوق سے شرکت نہیں کرتے جن میں ممتاز ماہرین تعلیم بطور لیکچرار تشریف لاتے ہیں‘ یوں وہ فکر و دانش کے بہت سے موتیوں کو چننے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ طلبا کو یونیورسٹیز کی ایسی تمام تقریبات میں دل جمعی سے شرکت کرنی چاہیے اور تعطیلات میں وقت کا ایک حصہ اہل علم کی صحبت میں گزارنے کیلئے وقف کرنا چاہیے۔

6۔ والدین کی خدمت اور رشتہ داروں سے ملاقات: والدین انسان کے بہت بڑے محسن ہیں اور وہ اس کی ترقی کے لیے اپنے وسائل اوروقت کا بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ انسان خواہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لے وہ اپنے والدین کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ تاہم انسان کو حسنِ نیت کے ساتھ والدین کی خدمت کے لیے اپنے وقت ‘ صلاحیتوں اور توانائیوں کو صرف کرنا چاہیے ۔ تعطیلات کے ایام اس اعتبار سے انسان کے لیے ایک بہترین موقع ثابت ہوتے ہیں کہ وہ گھریلو اُمور میں والدین کے بوجھ کو کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح تعطیلات میں انسان کو بہت سے اعزا و اقارب کے ساتھ میل ملاقات کرنے اور ان کی دعائیں لینے کا موقع بھی میسر آ جاتا ہے۔ اگر وہ اپنے رشتہ داروں اور اعزا واقارب کے ساتھ جا کر ملتا ہے تو لازماً ان کے دلوں میں اس کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسانوں کے مابین روابط تعلقات کی پختگی کا اہم ذریعہ ہیں۔ عصرِ حاضر میں انسان مصروفیات کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے کٹ کے رہ گئے ہیں۔ انسان کو اپنے وقت کو صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے اعزا واقارب سے ضرور ملنا چاہیے اور صلہ رحمی کے تحت ان کے حالات سے باخبر رہنا چاہیے۔ اگر وہ کسی چیز کے طلب گار ہوں یا ضرورت مند ‘ تو ان کی ضروریات کو پورا کر کے نیک تمناؤں اور دعاؤں کو حاصل کرنا چاہیے۔ یہ نیک تمنائیں اور دعائیں انسان کی آنے و الی زندگی میں استحکام اور ترقی کا سبب بن جاتی ہیں۔

7۔ غریبوں ‘ محتاجوں اور کمزوروں کی مدد: انسان پر سماج کے حوالے سے بہت سی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن میں سے ایک اہم ذمہ داری غریبوں‘ محتاجوں کے کام آنا ہے۔ تعلیمی مشغولیات کے دوران کئی مرتبہ انسان اس اہم ذمہ داری کو نبھانے سے قاصر رہتا ہے لیکن تعطیلات کے ایام میں خصوصیت سے کچھ وقت غریبوں ‘ مسکینوں اور یتامیٰ کی مدد کے لیے ضرورت نکالنا چاہیے ۔ اگر انسان غربیوں‘ یتامیٰ اور مساکین کی مدد کے لیے کمر بستہ ہو جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا ہو؛ چنانچہ نوجوانوں کو مفید کاموں کی انجام دہی کے لیے اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ اگر مندرجہ بالا امور کو حسبِ استطاعت انجام دے دیا جائے تو یقینا تعطیلات بامقصد طریقے سے گزر سکتی ہیں اور انسان تعطیلات سے بہت کچھ حاصل کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری اولادوں اور قوم کے نوجوانوں کو بہترین
انداز میں زندگی گزارنے کی توفیق دے تاکہ وہ معاشرے میں ایک مفید کارکن کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے سکیں۔

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر

Post a Comment

0 Comments