آپؐ کی پیدائش ایک ایسے علاقے میں ہوئی جہاں قبائل آباد تھے، جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنگ و جدل پر آمادہ رہتے تھے اور اِس قدر سنگدل واقع ہوئے تھے کہ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دَفنا دیتے تھے۔ اُن میں شراب نوشی اور بہت ساری معاشرتی خرابیاں عام تھیں۔ اُنہیں اپنی نسلی برتری پر بہت ناز تھا اور وہ اپنے مقابلے میں دوسروں کو عجمی یعنی گونگا کہتے تھے۔ حضرت محمدﷺ نے اُن کے درمیان زندگی اِس طرح بسر کی کہ آپ شہرِ مکّہ میں صادق اَور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ آپؐ جب چالیس برس کی عمر کو پہنچے، تو آپؐ نبوت کے منصب پر فائز کیے گئے اور آپؐ کو اللہ کی وحدانیت کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
آپؐ نے اہلِ مکّہ کو جمع کیا اور فاران کی وادی سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر مَیں یہ کہوں کہ پہاڑی کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر جمع ہے، تو کیا آپ لوگ میری بات پر یقین کریں گے؟ پورے مجمع نے بیک آواز جواب دیا، ہم اِس لئے یقین کریں گے کہ آپؐ نے ہمارے درمیان ایک صادق اور اَمین کے طور پر زندگی بسر کی ہے، تب آپؐ نے فرمایا کہ اللہ ایک ہے اور اِس نے مجھے تمہاری طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ اِس پر اہلِ مکّہ بہت برہم ہوئے، مگر اُنہوں نے رحمۃ للعالمینؐ کی اخلاقی عظمت کا برسرِعام اعتراف کیا۔ آپؐ کی اِسی اخلاقی عظمت اور قوت کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپؐ خُلقِ عظیم پر فائز ہیں اور آپؐ ہی انسانیت کے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ سرورِ دو عالمؐ نے دین کی تبلیغ کرتے ہوئے مکّہ مکرمہ میں تیرہ برس شدید ترین مزاحمت میں گزار دیے اور آپؐ کو بالآخر اپنے شہر سے مدینہ منورہ کی طرف سخت خطرات کے درمیان ہجرت کرنا پڑی۔
دشمنی و عداوت کے اِس انتہائی پُرآشوب عہد میں آپؐ نے اپنے اخلاق و کردار اور اِسلام کی سادہ اور حیات آفریں تعلیمات کے ذریعے ذہنوں اور دِلوں کو مسخر کرنے کا عمل بڑی خوش اسلوبی سے جاری رکھا جس کے اثرات مدینہ منورہ تک پہنچ گئے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر آپؐ نے مواخات، انسانی عظمت، عدل و انصاف اَور اللہ کی اطاعت پر ایک بےمثال ریاست قائم کی۔ آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر انسانی حقوق اور آزادیوں کا عالمگیر چارٹر عطا فرمایا۔ آپؐ نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اِنقلاب اخلاقی طاقت کے ذریعے بپا کیا تھا جس کے تہذیبی و تمدنی اثرات چار دَانگ عالم میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ یورپ کے فلسفی، دانش ور اور حکمران قرآن کی حقانیت سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں، اگرچہ منفی طاقتیں بھی سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے ایک انتہائی مختصر مدت میں جزیرۃ العرب کی پوری کایا پلٹ دی تھی۔ وہ قبائلی معاشرہ جس میں ہر شخص دوسرے شخص کا جانی دشمن تھا، اِس میں ایسا انقلاب برپا ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئے۔
بیٹیوں کو زندہ دَرگور کرنے والے اِنہیں سب سے زیادہ عزیز رکھنے لگے۔ ماں کی عزت ہونے لگی کہ اِس کے قدموں تلے جنت ہے۔ والدین کو یہ مقام عطا ہوا کہ اِن کے آگے اولاد اُف بھی نہیں کر سکتی۔ عورت کو وراثت میں شامل کر کے اِس کی آزادانہ حیثیت قائم کی گئی۔ قانون کے آگے برابری کا اصول ریاستِ مدینہ کی بنیاد قرار پایا۔ خوفِ خدا اور خوفِ آخرت اسلامی تمدن کے بنیادی اوصاف ہیں۔ انسان کا احترام اور اِس کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ دشمن کے ساتھ بھی انصاف کرنا، پڑوسیوں کا خاص خیال رکھنا، شہریوں کو تعلیم و تربیت کی سہولتیں فراہم کرنا، معاملات میں امانت و دیانت اور اِیفائے عہد کو بنیادی اہمیت دینا اسلام کی معاشرتی زندگی کے بڑے بڑے ستون ہیں۔ اِس قدر عظیم انقلاب رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ کے لازوال جذبۂ خیرخواہی اور عفو و درگزر کی عظیم ترین صفتسے برپا ہوا۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جب تک وہ آنحضرت محمد ﷺ کو اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اَور اپنے مال و متاع سے زیادہ عزیز نہیں سمجھیں گے، وہ مسلمان ہی نہیں ہو سکتے اور نبی آخر الزماںؐ کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔ یورپ میں سالہا سال سے آپؐ کے گستاخانہ خاکے آزادیٔ اظہار کے نام پر شائع ہوتے رہے ہیں۔ اِس بار فرانسیسی صدر میکرون نے سرکاری سطح پر اعلان کیا ہے کہ وہ یہ خاکے تمام سرکاری عمارتوں پر چسپاں کرے گا۔ اِس پر مسلم دنیا میں ایک زلزلہ سا آ گیا ہے۔ ترک صدر اردوان نے ایمانی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ میکرون کا دماغی معائنہ کرایا جائے۔ شاید اِس کا دماغ چل گیا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور دُوسرے مسلم ممالک کے عوام اور حکمرانوں نے غیرمعمولی ردِعمل ظاہر کیا ہے، تاہم ضرورت جوش کے ساتھ ہوش سے کام لینے کی ہے۔
اپنا نظامِ زندگی درہم برہم کرنے کے بجائے بین الاقوامی اداروں، تنظیموں اور حکومتوں پر اثرانداز ہونے اور اِنہیں اِس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ اِس طرح کی اشتعال انگیز حرکات کی مستقل روک تھام کے لیے قانون سازی کریں اور مذہبی پیشواؤں کے احترام کی فضا پروان چڑھائیں۔ اِس وقت او آئی سی کو ایک زبردست قائدانہ کردار اَدا کرنا ہو گا۔ یہ رحمتوں کا مہینہ ہے۔ ہمیں اِس میں اپنے دلوں کو محبوبِ خدا حضرت محمد ﷺ کی محبّت سے منور کرنے کے ساتھ ساتھ خارجی اور دَاخلی محاذوں پر معاملات کی درستی کے لیے جرأت و فراست کے ساتھ قدم آگے بڑھانا ہو گا۔ یہ ہماری کس قدر سیاہ بختی ہے کہ ہم دورِ جاہلیت کے عرب قبائل کی طرح ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور اپنے عزیز وطن کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ ہم اپنے رب اور سرورِ دوعالم حضرت محمد ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے!
0 Comments