رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’دل دو چیزوں ( غفلت اور گناہ) سے زنگ پکڑتا ہے اور دو چیزوں (استغفار اور ذکر الٰہی ) سے ہی زنگ دور کیا جا سکتا اور اسی کے ذریعے سے دل کو روشن کیا جا سکتا ہے ۔‘‘ ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا ’’ذکر الٰہی کیلئے کوئی قوم جب اور جہاں بیٹھتی ہے تو ملائکہ ان پر گھیرا ڈال لیتے ہیں اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا اپنی مجلس میں تذکرہ فرماتے ہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک روایت صحیحین میں ہے جسے حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا ’’ اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں: میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں جب مجھے یاد کرتا ہے میں علم کے لحاظ سے اس کے پاس ہوتا ہوں اگر مجھے دل میں یاد کرے تو میں دل میں اسے یاد کرتا ہوں مجلس میں یاد کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں میری طرف بالشت آئے تو میں ہاتھ برابر آتا ہوں ۔ ہاتھ بھر آئے تو میں دو ہاتھ برابر قریب آتا ہوں چل کر آئے تو میں دوڑ کر آتا ہوں ۔‘‘ (صحیحین)
ترمذی شریف میں ہے رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا :’’ جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو وہاں سے کچھ کھایا کرو ۔ ‘‘صحابہ کرام ؓنے استفسار کیا، جنت کے کونسے سے باغات ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’ ذکر الٰہی کے حلقے ۔‘‘ امام بیہقیؒ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مرفوعاً حدیث ذکر فرمائی کہ رسول اللہﷺ فرمایا کرتے ’’ ہر شے کیلئے صیقل ہے دلوں کی صیقل ذکر الٰہی ہے ۔ عذاب الٰہی سے بچنے کیلئے انسان کیلئے ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی چیز بہتر نہیں ۔ ‘‘صحابہ کرام ؓ نے دریافت کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی ؟ ‘‘ فرمایا ’’خواہ تلوار مارتے مارتے خود ہی شہید و پرزہ پرزہ کیوں نہ ہو جائے ۔ ‘‘ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : ’’ہیبت و جلال الٰہی سے جو تم اس کی تہلیل و تکبیر اور تحمید کرتے ہو وہ اللہ کے عرش کے گردو نواح گھومنے لگ جاتا ہے اور شہد کی مکھیوں کی طرح آواز کرتی ہیں اور اپنے فاعل کو یاد کرتی ہیں کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہیں بھی کوئی چیز عرش الٰہی کے پاس یاد کرے اور تمہارا تذکرہ کرے ؟‘‘( مسند امام احمد )
ذکر الٰہی سے اللہ ذاکر کیلئے جنت میں درخت لگا دیتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا : ’’معراج کی رات حضرت ابراہیم ؑ سے میری ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے ، میری طرف سے اپنی امت کو سلام دینا اور کہنا جنت کی زمین بھی نہایت اعلیٰ ہے اور اس کا پانی بھی میٹھا ہے۔ مگر وہ صاف چٹیل میدان ہے اور اس کے پودے ہیں سبحان اللہ ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اللہ اکبر۔‘‘( ترمذی) ذکر الٰہی سے جو انعامات حاصل ہوتے ہیں وہ دیگر اعمال سے نہیں ہوتے ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’جو شخص روزانہ 100 مرتبہ’’ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر‘‘پڑھے اسے 10 غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ 100 نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں اور صبح سے شام تک وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعمال سے بڑھ کر کسی کا عمل افضل نہیں ہوتا سوائے یہ کہ اس سے بڑھ کر کوئی عمل کرے ۔
اور جو شخص دن میں 100 مرتبہ ’’سبحان اللہ و بحمدہ‘‘ کہے اس کے تمام گناہ خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ ذکر الٰہی سے انحراف اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے جو لوگ ذکر الٰہی سے اعراض اور انحراف کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی معیشت کو تنگ کر دیتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : ترجمہ ’’اور ( ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے روز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا یا الٰہی مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھتا تھا ۔ ( جو اب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہئے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔‘‘(طہ) اس تنگی سے بعض نے عذابِ قبر اور بعض نے قلق و اضطراب ، بے چینی اور بے کلی مراد لی ہے ۔ اس تنگ زندگی کی عذابِ برزخ سے بھی تفسیر کی گئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’رسول ؐاللہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘ (بخاری کتاب الاذان )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذکر الٰہی کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں، ذکر کرنے والا جب جس وقت اور جس حالت میں چاہے اللہ کا ذکر کر سکتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن بسرؓ بیان کرتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا! اللہ کے رسول ﷺ! اسلام کے احکام کی مجھ پر کثرت ہو چکی ہے ، لہٰذا آپ ؐ مجھے کوئی (آسان سی) چیز بتا دیں جس پر میں عمل کرتا رہوں ۔ آپؐ نے فرمایا:’’ تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیے ۔‘‘( ابن ماجہ) حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں میں نے سنا آپ ﷺ نے فرمایا :’’ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے ۔‘‘ ( ابن ماجہ ) کلمۂ توحید کا ورد تمام اذکار سے بہتر ہے اور الحمد للہ کا ورد تمام دعاؤ ں سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ دونوں کلمے اللہ تعالیٰ کی توحید اور تحمید پر مشتمل ہیں ۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا :’’جو قوم اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکونت نازل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ( بطور فخر) ان کا تذکرہ اپنے فرشتوں سے کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں ۔‘‘ ( مسلم کتاب الذکر والدعاء)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ جو لوگ اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو ایسی مجالس باعث حسرت اور نقصان دہ ہوتی ہیں ، اللہ اگر چاہے تو انہیں عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف کر دے ۔‘‘ ( مسند احمد) اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ہر ، لمحہ ہر موڑ پر ذکر الٰہی کا ہی درس دیا ہے ۔ گھر سے نکلیں تو دعا ، بازار جائیں تو دعا ، سواری پر سوار ہوں تو دعا، شہر میں داخل ہوں تو دعا ، پانی پئیں تو دعا ، کھانا کھانے سے فارغ ہوں تو دعا ، مسجد میں داخل ہوں تو دعا اور نماز تو دعاؤ ں کا مجموعہ ہے ۔ مسجد سے باہر نکلیں تو دعا لباس پہنیں تو دعا ، الغرض ہر حال میں دعا ۔ دین اسلام نے انسان کو کسی بھی موڑ پر نہیں چھوڑا ہر مقام پر ذکر الٰہی کی تلقین کی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے ہم ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول و مصروف رہیں اسی میں کامیابی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
0 Comments