بعض طلبہ جو قرآن پر تدبر کر رہے ہیں اور اس کے پورے نظام کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مطالعہ قرآن میں کن آداب وامور کا لحاظ ضروری ہے۔ ان کی رہنمائی کیلئے یہ سطریں لکھی جاتی ہیں۔ امید ہے مطالعہ قرآن کے شائقین ان سے فائدہ اٹھائیں گے۔ نیت کی درستی: مطالعہ قرآن میں سب سے مقدم چیز، نیت اور ارادہ کی درستی ہے، نیت ارادہ کی درستی کا جو مفہوم بالعموم اس زمانہ میں سمجھا جاتا ہے ہم نے اس سے کسی قدر وسیع مفہوم پیش نظر رکھا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ یہاں ہم اس کی تشریح کر دیں۔ موجودہ زمانے میں علوم کے تدبرو و مطالعہ کا ایک خاص ڈھنگ ہے جس کی ایک مقبول عام شکل وہ ہے جس کو ہم ریسرچ کے نام سے جانتے ہیں ۔ ہر چند کہ یہ چیز کچھ اس زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، ہر زمانے میں اہل علم و تحقیق کی راہ یہی رہی ہے ، لیکن ہماری موجودہ پست حالی نے ہمیں اس قدر پست کر دیا ہے کہ ہمارے اندر نہ تو اپنی قدیم اولوالعزمیوں کیلئے کوئی احترام باقی رہ گیا ہے، نہ وقت کی راہوں میں ہمت آزمائی کا کوئی حوصلہ۔ ایسی حالت میں لوگوں کو یہ سمجھانا کہ قرآن مجید کا مطالعہ موجودہ زمانے کی ریسرچ کے علاوہ کچھ اور بھی ہے، ایک انوکھی اور عجیب سی بات ہو گی۔ لیکن چونکہ حقیقت حال یہی ہے اس لئے ناگزیر ہے کہ یہ عجیب بات بیان کر دی جائے۔ آج اگرچہ ان باتوں کی قدر کرنے والے تھوڑے نکلیں گے۔ لیکن اگر کچھ لوگ بھی ایسے نکل آئے جنہوں نے ان کی قدر کی اور مطالعہ قرآن میں ان کا لحاظ رکھا تو انشاء اللہ اس سے بڑی برکتیں ہوں گی۔
جہاں تک قرآن مجید کے محل فکر و تدبر ہونے کا سوال ہے اس پر کچھ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جن لوگوں کو دین کے فہم کا کوئی حصہ ملا ہے وہ اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے اسرار بغیر فکر و تدبر کے نہیں کھل سکتے۔ لیکن قرآن مجید کیلئے صرف اسی قدر ضروری نہیں ہے کہ اس پر فکر و تدبر کیا جائے۔ بلکہ اس فکر و تدبر کے کچھ خاص شرائط و آداب ہیں جن کا اہتمام اس راہ میں ضروری ہے اور اگر یہ اہتمام نہ کیا جائے تو یہ عموماً رائیگاں جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں باوجود یہ کہ تدبر قرآن کا ادعا روز بروز بڑھ رہا ہے ہمارے حالات میں کوئی اصلاح نہیں ہو رہی ۔ اگر غور کیجئے تو نظر آئے گا کہ امید کی وہ ہلکی سی روشنی بھی جو کبھی کبھی ہماری عام مایوسیوں کے اندر نظر آجایا کرتی تھی آہستہ آہستہ غائب ہو رہی ہے ۔ تاریخ اسلام کے تمام فرقوں کے حالات اور ان کے اساسی معتقدات اگر معلوم کیجئے تو قرآن مجید آپ کو ہر ایک کے ہاتھ میں نظر آئے گا۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ قرآن مجید تو ہدایت اور رہنمائی کی روشنی ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جو اس کو دیکھتا اور پڑھتا اس کو ٹھیک راہ مل جاتی، سیدھا راستہ نظر آجاتا ، وہ ہدایت وایمان سے معمور ہو جاتا، ہر گوشہ میں وحدت و یک جہتی کی شاہراہ اس پر کھل جاتی ، اختلاف و تفریق کے تمام کج پیچ نکل جاتے اور اس کی تعلیم و دعوت کی ہم آہنگ ، غیر مبہم اور پر زور صدائوں سے اس کے دل و دماغ اس طرح بھر جاتے کہ اس کے علاوہ نہ وہ کچھ سوچ سکتا نہ کچھ سمجھ سکتا ۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ اس کو ایک تلوار کی طرح دوست اور دشمن ، دونوں استعمال کر رہے ہیں۔ مومن اسی کو لے کر حق و عدل کی حمایت کرتا ہے اور منافق اسی کے ذریعے سے سچائی اور حقیقت کو مغلوب کر لینا چاہتا ہے۔ آخر قرآن ہر ایک پر کیوں نہیں کھل جاتا ؟ اس کی صاف اور واضح تعلیمات ہر ایک کے دل کو کیوں نہیں پکڑ لیتی ہیں؟ اس کی اصلی تعریف تو یہی ہے کہ وہ ہر قسم کے کچ پیچ سے پاک ہے، اپنی تعلیمات و توضیحات میں بالکل غیر مشتبہ اور غیر مبہم ہے اور اس کے ہر گوشہ میں کامل توافق ، کامل اتحاد، کامل ہم آہنگی اور کامل وحدت نمایاں ہے پھر اس کے مختلف پڑھنے والے مختلف راہوں میں کیوں نکل جاتے ہیں؟ وہ سب کو کھینچ کر ایمان و عقیدہ کی ایک ہی شاہراہ پر کیوں نہیں کھڑا کر دیتا؟
ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کے مطالعہ کے کچھ خاص آداب و قواعد ہیں جن کا لحاظ و اہتمام ضروری ہے، ان کے بغیر قرآن کی راہ نہیں کھل سکتی۔ ان میں سب سے مقدم، جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے ، ارادہ اور نیت کی درستی ہے۔ یہ اللہ کی کتاب اور خلق کی ہدایت کیلئے نازل ہوئی ہے اس لئے سب سے مقدم یہ ہے کہ انسان بالکل خالی الذہن ہو کر اس کو صرف طلبِ ہدایت کیلئے پڑھے اور اپنے قلب و دماغ کو پورے طور پر اس کے حوالے کر دے، اپنے دل کی باگ اس کے ہاتھ میں دیدے ، تمام خیالات و معتقدات سے خالی ہو کر اپنے تئیں اس امر کیلئے آمادہ کرے کہ قرآن کے اندر اپنی خواہشات کیلئے سند جواز، اپنے معتقدات کیلئے حیلے اور اپنے نفس کیلئے جائے پناہ نہیں تلاش کرے گا، کج بحثیاں اور اعتراضات نہیں ڈھونڈے گا، بلکہ تشفی اور طمانیت تلاش کرے گا قرآن مجید کو اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگائے۔ جس شخص کا مقصود طلب ہدایت نہ ہو، بلکہ اعتراض اور کج بحثی ہو اور اس کی خواہشوں نے اس کے دل میں جو وسوسے پیدا کر دیئے ہوں قرآن مجید کو ان سے ہم آہنگ کرنا چاہتا ہو اس کیلئے قرآن مجید میں بالکل محرومی ہی محرومی ہے ۔
قرآن مجید نے اپنی خصوصیات کی طرف خود اشارہ کر دیا ہے ۔ ترجمہ:’’وہی جس نے تمہارے اوپر کتاب اتاری جس میں محکم آیات ہیں جو اصل کتاب کا درجہ رکھتی ہیں اور دوسری کچھ آیتیں اس میں ایسی ہیں جو متشابہ ہیں۔ تو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اس میں متشابہات کے درپے ہوتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت و ماہیت معلوم کریں حالانکہ ان کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تو جو لوگ علم میں راسخ ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے ، یہ سب ہمارے رب ہی کے پاس سے ہیں اور یاد دہانی تو اہل عقل ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔ (سورہ آل عمران 7-3) قرآن میں دو طرح کی آیات : اجمالاً اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں دو طرح کی آیات ہیں ایک محکمات اور دوسری متشابہات۔ محکمات اپنے مفہوم و مطلب میں بالکل واضح ہیں ان میں کسی پہلو سے کسی طرح کا اشتباہ نہیں ہے۔ ان کا تعلق ہماری عملی اور اقتصادی زندگی کے اساسی مسائل سے ہے، اس لئے ہم ان کے تمام پہلوئوں کو اچھی طرح اپنی گرفت میں لے سکتے ہیں اور منطق و استدلال کی تمام کسوٹیوں پر جانچ کر ان کی نسبت اپنے قلب کو ہر طرح مطمئن کر سکتے ہیں۔
متشابہات کا حال ان سے کچھ مختلف ہے ۔ اصولی طور پر تو وہ عقل و استدلال کی نہایت محکم بنیادوں پر مبنی ہوا کرتی ہیں اس لئے ان پر اجمالاََ ایمان لانے اور یقین کرنے میں عقل کو ذرا بھی الجھن نہیں ہوتی۔ لیکن چونکہ ان کا تعلق اس عالم محسوسات سے ماوراء احوال و امور سے ہوتا ہے، اس وجہ سے ان کی تفصیلات ہماری عقل و منطق کے دائرے میں نہیں سماتیں۔ قرآن پڑھنے والوں کی دو قسمیں: پھر جس طرح قرآن مجید کی آیتوں کی دو قسمیں ہیں اس طرح قرآن مجید کے پڑھنے والوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ لوگ جو ارادہ اور نیت کر کے اس کی طرف بڑھتے ہیں اور ان کا مقصد طلب رشد وہدایت کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ قرآن مجید فوراََ ایسے لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کو اپنی تربیت میں لے لیتا ہے۔ وہ اس کی محکمات میں اپنے روح و قلب کیلئے پوری آسودگی اور اپنی اعتقادی و عملی زندگی کیلئے پوری رہنمائی پاتے ہیں۔ ایک مدت کے بعد ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا سکون قلب اور طمانیت عقل کی بہشت میں پہنچ گئے ہیں۔
ان کے دل کی تمام خلشیں دور ہو جاتی ہیں، شبہات و شکوک کے تمام کانٹے ایک ایک کر کے نکل جاتے ہیں متشابہات سے ان کے دل میں کوئی وحشت نہیں پیدا ہوتی، کیونکہ اصولی طور پر وہ بالکل عقل وحکمت پر مبنی ہوتی ہیں اور اجمالاً ان پر ایمان لانے میں عقل کو کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی، صرف یہ بات ہوتی ہے کہ ان کی جزئیات کے متعلق کوئی تفصیلی تصور عقل کی گرفت میں نہیں آتا تو یہ ایسی چیز نہیں ہے جو سبب انکار و اعراض ہو ۔ اگر ہمارے پاس 99 روپے موجود ہیں تو بہتر ہو گا یہ پورے 100 ہو جائیں ۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو کیا ہم اپنی جیب سے 99 روپے پھینک دیں گے؟ پس اس طرح کی آیات کے باب میں وہ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (ہم ان پر ایمان لائے ، یہ سب ہمارے رب ہی کے پاس ہے) اور ان کا یہ کہنا بے وقوفی اور ناسمجھی کی وجہ سے نہیں ہوتا، بلکہ عقل و دانش اور علم کی پختگی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔
چنانچہ قرآن نے ان کو (پختہ کارانِ علم) کے عظیم الشان لقب سے پکارا کیونکہ انکا آیات متشابہات کے متعلق یہ اعتراف در حقیقت کمال عقل و حکمت انتہائے فکر و تدبر اور علم کی پختگی کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے معاملہ کو، جہاں تک اس کی اصل و بنیاد کا تعلق ہے ، اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ اس کے متعلق ان کو کسی طرح کا تذبذب باقی نہیں رہ گیا ہے۔ صرف اس کے بعض گوشوں کے متعلق ان کو شرح صدر کا انتظار ہے سو اس کیلئے وہ امیدوار ہیں کہ اللہ ان کو جلد تشفی و طمانیت سے بہرہ مند فرمائے گا۔ اور اگر کبھی یہ شکوک خلجان اور پریشانی کا سبب ہونے لگتے ہیں اور قلب کی طمانیت میں کچھ فتور نظر آتا ہے تو فوراً وہ دعا ان کی زبان پر جاری ہو جاتی ہے جو اسی آیت کے بعد ہی ہے، یعنی : ترجمہ :’’اے ہمارے پروردگار! ہمارے دلوں کو ہدایت بخشنے کے بعد کج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت بخش ۔ تو نہایت بخشنے والا ہے۔‘‘ (سورہ آل عمران 8-3)
دوسری جماعت ان لوگوں کی ہے جو اپنے ارادہ و نیت کی اصلاح کیے بغیر محض اپنے اغراض و خواہشات کی تائید ڈھونڈنے کیلئے قرآن پڑھتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنی باگ قرآن کے ہاتھ میں دیدیں، چاہتے ہیں کہ قرآن کی باگ ہاتھ میں لے کر اس کو جس طرف چاہیں پھیریں ۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جب قرآن مجید پڑھیں گے تو وہ محکمات پر نہیں ٹکیں گے کیونکہ وہ ان کے مطلب کی چیز نہیں بن سکتی ان کو تسلی و طمانیت یا عمل و اطاعت کی راہ مطلوب نہیں ہے۔ ایسے لوگ تو صرف متشابہات کی طرف بڑھیں گے اور جن باتوں کا اجمالاً مان لینا ان کیلئے کافی ہوتا وہ ان کی جزئیات و تفصیلات کے بخیے ادھیڑیں گے اور بالکل یہود کی طرح جن کو اس بات پر اعتراض تھا کہ دوزخ کی آگ میں درخت کیسے پائے جا سکتے ہیں اور اس اعتراض کی وجہ سے انہوں نے اپنے اوپر اللہ کی ہدایت کے دروازے بند کر لئے تھے ۔
یہ لوگ بھی طرح طرح کے شبہات و شکوک پیدا کریں گے اور اس طرح اپنے آپ کو اللہ کی ہدایت سے محروم کر لیں گے ۔ ان لوگوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے تئیں عقل و دانش کا پتلا سمجھتے ہیں لیکن قرآن نے مندرجہ صدر آیت میں ان کو احمق اور بے عقل قرار دیا ہے۔ اور فی الواقع ان لوگوں سے بڑھ کر بے وقوف کون ہو سکتا ہے جن کی سب سے بڑی آرزو یہ ہو کہ وہ پورے قرآن میں کوئی ایسی بات پا لیں جو ان کی خواہشوں کے سانچے میں ڈھل سکے یا جس کو بنیاد قرار دے کر وہ قرآن پر اعتراضات کر سکیں۔ اس سے بڑھ کر بے وقوفی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک شخص حکمت کے999 اصولوں کو اس لیے ٹھکرا دے کہ اس کے ہزارویں اصول کی تمام جزئیات ’’پورے طور پر‘‘ اس کی گرفت میں نہ آ سکیں۔ یہاں ’’پورے طور پر‘‘کے الفاظ پر ہم خاص طور پر زور دینا چاہتے ہیں‘ اس لیے کہ متشابہات عقل اور ادراک سے بالکل خارج نہیں ہوا کرتی ہیں‘ بلکہ عقل و ادراک کے دائرے کے اندر ہوتی ہیں‘البتہ ان کی جزئیات کی تفصیل ہم نہیں سمجھ سکتے‘ کیونکہ ہمارے علم و مشاہدہ کی تمام معلومات ان کی مثالیں فراہم کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔
یہ اصلاً تو ان کا بیان ہے جو عہدِ نزولِ قرآن میں موجود تھے‘ لیکن اگر غور کیجئے تو اس آیت نے ہر دور کے راسخون فی العلم اور اربابِ زیغ کی حقیقت واضح کر دی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں قرآن کے پڑھنے والے انہی دو گروہوں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔ ایک راسخون فی العلم اور اولوالالباب ‘ دوسرے طالبینِ فتنہ اور اربابِ زیغ۔ ایک گروہ کا اصلی مطمحِ نظر قرآن کا وہ حصہ رہا ہے جو محکمات سے متعلق ہے ۔ کیونکہ اس کا مقصود طلبِ رشد و ہدایت تھا۔ اس گروہ نے قرآن سے فیض پایا اور صراطِ مستقیم کی ہدایت حاصل کی۔ دوسرا گروہ اربابِ زیغ و تاویل کا تھا‘ اس نے قرآن کی طرف ہدایت کے لیے نہیں‘ بلکہ شرارت کے لیے قدم بڑھائے۔ ان کی نیتیں فاسد اور ان کے ارادے بُرے تھے۔ اس لیے قدرتاً یہ قرآن کے اس حصہ کی کھوج کرید میں مشغول ہو گیا جو متشابہات سے متعلق ہے اور جس میں عقلِ انسانی اگر سنبھل کر نہ چلے اور ہر قدم پر خدا کی توفیق شاملِ حال نہ ہو تو طرح طرح کی ٹھوکریں لگ سکتی ہیں۔
0 Comments