اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولیدؓ : اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولیدؓ : اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی

حضرت خالد بن ولیدؓ کا پُورا نام ابو سلیمان خالد بن ولید المخزومی ہے۔ نسب اس طرح سے ہے۔ خالد بن ولیدؓ۔ بن المغیرہؓ ، بن عبداللہ ۔ بن عمر ۔ بن مخزوم، بن تیظتہ، بن مرۃ۔ حضرت مرۃؔ، حضور پاک ﷺ کے ساتویں دادا ہیں۔ اس طرح پر حضرت خالدؓ کا سلسلۂ نسب ساتویں پشت میں پیغمبر اسلامﷺ سے مِل جاتا ہے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ساتویں دادا بھی یہی حضرت مرۃؔ ہیں۔ آپؓکی والدہ حضرت لبابہؔ صغریٰ بنت الحارث اُمّ المومنین حضرت میمونہؓ کی حقیقی ہمشیرہ تھیں۔ گویا آنحضرتﷺ آپؓ کے حقیقی خالُو تھے اور خاندانِ نبوت سے آپؓ کا یہ دوسرا قریبی رشتہ تھا۔ جیسا کہ آپؓکے نام سے ظاہر ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کا تعلق قریش کے مشہور قبیلے بنو مخزوم سے ہے۔ مخزوم حضرت خالدؓ کے پانچویں دادا تھے۔ معتبر روایتوں کے مطابق حضرت خالدؓ کے چھ بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ بھائیوں میں ہشام اور ولید اسلام لے آئے تھے اور باقی چار کا خاتمہ حالتِ کفُر میں ہوا۔ 

بہنوں میں سے ایک کی شادی حضرت صفوان بن امیہّ کے ساتھ ہوئی تھی اور دوسری کی حارث بن ہشام کے ساتھ۔ حضرت خالدؓ کے صحیح سنِ پیدائش کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ملتی۔ مختلف حوالوں سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے ہم عمر تھے اور ظہُورِ اسلام کے وقت آپؓ کی عمر تقریباً ۱۷ سال تھی۔ علم و فضل، اصابت رائے، جنگجویانہ اوصاف اور اچھے افراد کی کثرت کے باعث بنو مخزوم قریش میں خاص درجہ رکھتے تھے اور بنو ہاشم کے بعد اسی قبیلے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ زمانۂ جاہلیت کی رسم کے مطابق قریش کی تمام شاخوں کے ذمے کوئی نہ کوئی فوجی خدمت تھی۔ ایاّمِ جنگ میں جس کا پُورا کرنا اُن کا فرض تھا۔ اس لحاظ سے بنو مخزوم کی ڈیوٹی یہ تھی کہ لڑائی کے دنوں میں فوجوں کے لیے گھوڑے مہیّا کریں اور سپاہیوں کے آرام اور سامانِ جنگ اکٹھا کرنے کے لیے خیمے نصب کریں۔ 

حضرت خالدؓ کے والدِ ماجد عبدالشمس الولید بن المغیرہ مخزومی مکّہ کے نہایت متمول اور ذی اثر شخص سمجھے جاتے تھے۔ مکّہ سے طائف تک آپ کے باغات پھیلے ہوئے تھے۔ اُن کے تمول کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سال تنہا خانۂ کعبہ کا غلاف بنواتے تھے۔ دوسرے سال تمام قریش مِل کر بنواتے تھے ۔ حج کے ایاّم میں منیٰ کے مقام پر حاجیوں کو ایک وقت کا کھانا بھی کھِلایا کرتے تھے۔ آج کل اس بات پر بہت زور دیا جاتا ہے کہ بڑھنے کی عُمر میں بچّوں کی ذہنی اور جسمانی آسُودگی کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے ، تاکہ وہ قدو قامت اور خیالات کے لحاظ سے مکمّل انسان بن سکیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب قوم ایاّمِ جاہلیت سے ہی اس گُر کو بخوبی سمجھتی تھی۔ عرب میں عام قاعدہ تھا کہ کھاتے پیتے گھرانوں کی مائیں اپنے شِیر خوار بچّوں کو دایہ کے سپُرد کر دیتی تھیں جو دیہات کی کھُلی فضا میں اُن بچّوں کی پرورش کرتی تھیں۔ 

آنحضرتﷺ کی مُبارک زندگی کے حالات میں دائی حلیمہ کے مکّہ آنے اور آپ ﷺ کی والدہ محترمہ کی زندگی میں اپنے ہمراہ لے جانے کے ذکر سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے قیاس کیا جاتا ہے کہ حضرت خالدؓ نے بھی بچپن کے ایاّم دیہات کی آزاد فضائوں میں بسر کئے ہوں گے اور وہاں اُن کی جسمانی اور دماغی قوتوں کو پھلنے پھُولنے کا پورا موقع مِلا ہو گا۔ جنگجو قریش ابتدا ہی سے اپنے بیٹوں کی پرورش اس طور پر کرتے تھے کہ وہ جلد از جلد اُن کے قوتِ بازو بن کر جنگی مہمّوں میں حصّہ لے سکیں۔ چنانچہ حضرت خالدؓ نے ایک ایسے ماحول میں ہوش سنبھالا جہاں شہسواری، نیزہ بازی ، شمشیرزنی اور جنگی دائو گھات کے سوا دوسرے ذکر اذکار بہت کم تھے۔ آپؓ نے ہجرت کے تین ماہ بعد ۹۵ برس کی عمر میں انتقال کیا۔

سیّدامیر احمد

(کتاب’’خالد بن ولید‘‘ سے منقبس)  



Post a Comment

0 Comments