یارِ غار : حضرت ابو بکر صدیق ؓ

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

یارِ غار : حضرت ابو بکر صدیق ؓ

جمادی الثانی کا آخری عشرہ ہمیں اس عظیم شخصیت کی یاد دلاتا ہے‘ جو پیکر صدق وصفا ‘مجسمہ مہر و وفا اور سراپا ایثار واحسان تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓمردوں میں سے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی شخصیت ہیں۔ آپ مکہ کے بڑے سردار اور کامیاب تاجر تھے۔ آپ کی دور بین نگاہ میں حقائق کا ادراک کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی؛ چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓبغیر کسی ہچکچاہت کے فوراً سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایمان لے آئے۔ اسلام کے پہلے دور میں اہل ایمان کو بہت سی آزمائشوں کا سبب تھی اور ایمان اور ایقان کے راستے پر چلنا بہت مشکل تھا؛ چنانچہ وہ لوگ جو ان ایام میں ایمان لائے درحقیقت انہوں نے اپنے لیے آزمائشوں کے دروازوں کو کھول لیا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو بھی اسلام اور ایمان کی وجہ سے بہت سی صعوبتوں کو سہنا پڑا۔ 

بخاری شریف میں حضرت عائشہ ؓ سے راویت ہے کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا‘ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں‘ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا۔ جب آپ برک غماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا‘ ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں۔ اس پر مالک بن الدغنہ نے کہا کہ آپ جیسا انسان ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے کہ آپ تو محتاجوں کے لیے کماتے ہیں‘ صلہ رحمی کرتے ہیں‘ مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں۔ آپ چلئے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے؛ چنانچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا نیک آدمی ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دو گے‘ جو محتاجوں کے لیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتا ہے اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے؛ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے دی۔

قریش مکہ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو امان تو دی دے‘ لیکن ابن الدغنہ کے سامنے اس بات کو رکھا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اگر عبادت کرنا چاہیں تو اپنے گھر ہی میں عبادت کریں۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سنائیں تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کرنے لگے۔ نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے‘ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ اب آپ ظاہر ہو کر وہاں نماز پڑھنے لگے اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے۔ پس پھر کیا تھا مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی رونے والے تھے۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسووں پر قابو نہ رہتا۔ 

اس صورت ِحال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے اور سب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے‘ لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنا لی ہے۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ ‘میرے والد گرامی کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط‘ جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا۔ اب یا تو آپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کر دیں‘ کیونکہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی‘ لیکن وہ امان توڑ دی گئی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں‘ میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں۔

کفار مکہ نے اسلام کی دعوت کو پھیلتا دیکھ کر مسلمان پر سرزمین مکہ کو تنگ کر دیا اور ان کو مختلف طرح کی اذیتوں اور تکلیفوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ایسے عالم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو سرزمین مکہ سے نکل کر سرزمین مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی۔ سفر ہجرت کے دوران حضرت ابو بکر صدیق ‘ؓ رسول اللہ ﷺکے ہمراہ تھے۔ آپ دونوں نے غار ثور میں قیام کیا ۔ابو بکر صدیق ؓ ‘غار ثور کے قیام کے دوران پریشان تھے کہ کفار کہیں نبی کریم ؐ کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حوالے سے سورۂ توبہ کی آیت نمبر40 میں ارشاد فرمایا '' اگر نہ تم مدد کرو گے اس کی تو یقیناً مدد کر چکا ہے‘ اس کی اللہ جب نکال دیا گیا‘ اُسے (ان لوگوں نے) جنہوں نے کفر کیا اور دوسرا تھا دو میں سے جب وہ دونوں تھے‘ غار میں جب وہ کہہ رہا تھا‘ اپنے ساتھی سے تو غم نہ کر بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے‘ پھر نازل کی اللہ نے اپنی سکینت اُس پر اور قوت دی اُسے (اپنے)ـ لشکروں سے (کہ) نہیں دیکھا تم نے اُنہیں اور کردی بات (اُن لوگوں کی) جنہوں نے کفر کیا ۔‘‘

حضرت صدیق ابو بکر صدیق ؓ کی غار ثور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کے تاریخ اور انسانی معاشروں پر اس حد تک اثرات مرتب ہوئے کہ ''یارِ غار‘‘حقیقی دوستی کا حوالہ بن گیا۔ آج بھی اگر کوئی شخص کسی کی گہری دوستی کا ذکر کرنا چاہے یا نشاندہی کرنا چاہے تو یہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص اس کا یارِ غارہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ اسلام کی معاونت کے لیے ہمیشہ کھلے دل سے خرچ کرنے پر آمادہ رہتے۔ سنن ابی داود میں روایت ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ایک دن ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں‘ اتفاق سے اس وقت میرے پاس دولت تھی‘ میں نے کہا: اگر میں کسی دن ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جا سکوں گا تو آج کا دن ہو گا؛ چنانچہ میں اپنا آدھا مال لے کر آیا‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے‘ میں نے کہا: اسی قدر یعنی آدھا مال‘ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے کر حاضر ہوئے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟ ‘ 

انہوں نے کہا میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں‘ تب میں نے ( دل میں ) کہا: میں آپ سے کبھی بھی کسی معاملے میں نہیں بڑھ سکوں گا۔ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کو بہت سے بحرانوں کا سامنا کرناپڑا۔ کفار مسلمانوں پر جارحیت کا ارتکاب کرتے رہے۔ ایسے عالم میں مسلمانوں نے بہت سی جنگوں کو لڑا۔ ان جنگوں میں حضرت ابو بکر صدیق ‘رسول کریم ﷺ کے ہمراہ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے رخصتی سے قبل جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلۂ امامت پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو کھڑاہونے کا حکم دیا۔ اس واقعہ کا ذکر صحیح بخاری میں بھی آیا ہے۔ جامع ترمذی میں حضرت عائشہ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کسی قوم کے لیے مناسب نہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ان کے سوا کوئی اور ان کی امامت کرے‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ آپ کے خلیفہ بنے آپؓ نے دارالسلام کو لاحق تمام فتنوں اور خطرات سے نکالنے کی بھر پور کوشش کی۔ آپؓ نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے گروہوں اور مرتدین کی سرکوبی کے لیے لشکر کشی کی۔ آپؓ نے مانعین زکوٰۃ کو زکوٰۃ ادا کرنے پر آمادہ کیا۔ آپؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے بحرانوں کے باوجود لشکر اسامہ کو روانہ فرمایا۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ پیرانہ سالی کے عالم کے باوجود خلافت کی ذمہ داریوں کو نہایت احسن طریقے سے نبھاتے رہے اور دو سال دو ماہ کی قلیل مدت خلافت کے بعد اِس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ ؓ کی تدفین حجرہ ٔعائشہ ؓ میں رسول کریمﷺ کے ساتھ ہی ہوئی اور یوں شمع رسالت کا پروانہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قریبی ترین رفیق قیامت کی دیواروں تک آپؐ کے ساتھ ہی محوِ خواب ہو گیا۔

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر

Post a Comment

0 Comments