بے کسوں کا سہارا

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

بے کسوں کا سہارا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ قدیم آسمانی کتابوں میں ملتا ہے‘ جس میں آپ کی شان وشوکت اور فتوحات کے اشارات بھی ہیں اورآپؐ کی درویشی‘ سادگی اور انسانیت کے ساتھ ہمدردی وغم گساری کی تصاویر بھی نمایاں ہیں۔ انسانیت زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ لوگوں نے اپنے اوپر بوجھ ڈال رکھے تھے اور ان کے نیچے دبے جارہے تھے۔ طاقت وروں نے کمزوروں کو حقوق سے محروم کر رکھا تھا اور آقاؤں نے غلاموں کو جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا تھا۔ دنیا ظلم وجور سے بھر گئی تھی اور کراہتی ہوئی انسانیت اسی طرح رحمت عالم کی منتظر تھی‘ جس طرح قحط زدہ پیاسی زمین ابرِرحمت کو ترستی ہے۔ اللہ نے انسانیت کی قسمت بدلنے کا فیصلہ کیا تو رحمتِ مجسمؐ مبعوث ہوئے۔ نبی رحمت ؐ خود حسب ونسب کے لحاظ سے بہت بلند وبالا‘ عادات واخلاق کے لحاظ سے بہت ارفع واعلیٰ اور ذوق وطبع کے لحاظ سے بے انتہا نفیس اور مصفٰی تھے۔ 

آپ نے اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے اور دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے خود کو ہر آزمایش اور ابتلا کے لیے پیش کیا اور صبرو استقامت سے جانبِ منزل رواں دواں رہے۔ عرب کے معاشرے میں ہر کمزور گرفتارِ بلا تھا‘ مگر غلاموں اور کنیزوں کا تو کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حقوق کی ضمانت دی اور خود اپنے حسن سلوک سے یادگار مثالیں چھوڑیں۔ نورِ وحی کے آنے کے بعد تو آپ امامِ انسانیت اور اسوۂ حسنہ تا قیامت قرار پائے ‘مگر اس سے پہلے بھی آپؐ اس حوالے سے قابلِ رشک اور مثالی کردار کا مظہر تھے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے نبی اُمّی کے بارے میں ارشاد فرمایا: ''(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر‘ نبی امّیؐ کی پیروی اختیار کریں‘ جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے ‘جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں‘ جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے‘ وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (الاعراف۷:۱۵۷)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا: ''تمہارے غلام‘ تمہارے غلام‘ تمہارے غلام‘ انہیں ویسا ہی کھلاؤ جیسا خود کھاتے ہواور ویسا ہی پہناؤ جیسا خود پہنتے ہو۔ اگر وہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھیں‘ جسے تم معاف نہ کرنا چاہو تو بھی انہیں سزا اور ایذا نہ پہنچاؤ ‘بلکہ اللہ کے بندو! ایسی حالت میں انہیں فروخت کر دو۔ (بحوالہ : مسند احمد‘ ج۴‘ص۳۶‘ مطبوعہ بیروت) چونکہ پوری دنیا اور عرب کے معاشرے میں غلاموں کا وجود اور خرید وفروخت مروّج تھی‘ اس لیے آپؐ نے انہیں بیچ ڈالنے کی بات فرمائی ‘ لیکن عمومی طور پر آپؐ غلاموں کی آزادی کے عَلم بردار تھے۔ اس کے لیے نا صرف آپؐ نے امت کو تلقین فرمائی ‘بلکہ خود عملاً سیکڑوں غلام اور کنیزیں آزاد کیں۔ کبار صحابہؓ کا بھی یہی طرز عمل تھا۔ آپؐ کا ایک ارشاد عبداللہ بن عمرؓ نے نقل کیا ہے‘ روایت کرتے ہیں: ''میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا‘ جس کسی نے غلام کو تھپڑ مار دیا یا کوئی ضرب لگائی تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔‘‘ (بحوالہ: مسلم‘ کتاب الایمان‘ حدیث۴۲۹۸)

حضرت ابو مسعود البدریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے غلام کو کوڑے سے مارا تو اچانک پیچھے سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی۔ میں نے آپؐ کی آواز سن کر کوڑا پھینک دیا۔ آپؐ نے فرمایا: ''ابومسعود! خوب جان لو‘ تم اس غلام پر جتنی قدرت رکھتے ہو‘ اللہ اس سے کہیں زیادہ تمھارے اوپر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا: ''اب میں کبھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا‘‘۔ ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ میں نے عرض کیا: ''یارسول اللہ اسے میں نے اللہ کی خاطر آزاد کر دیا ہے۔‘‘ جواب میں آپؐ نے فرمایا: ''اگر تو یہ نہ کرتا تو آگ کی لپٹ تجھے آلیتی۔‘‘ (بحوالہ: مسلم‘ کتاب الایمان‘ حدیث۴۳۰۶‘۴۳۰۸) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری کلام کے بارے میں حضرت علیؓ راوی ہیں کہ آپؐ کی زبان پر آخری لمحات میں یہ الفاظ تھے: ''نماز‘ نماز‘ اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا‘‘۔ (بحوالہ: ابوداؤد‘ کتاب الادب‘ حدیث۵۱۵۶) ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ ہم اپنے غلاموں اور خدام کو ان کی غلطیوں پر کتنی مرتبہ معاف کریں تو آپؐ خاموش رہے۔ اس نے پھر سوال دُہرایا تو بھی آپؐ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ سوال کرنے پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''ہر دن میں ستر مرتبہ ان سے عفو و درگزر کا معاملہ کیا کرو‘‘۔ (بحوالہ: ابوداؤد‘ کتاب الادب‘ حدیث۵۲۶۴)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعتاً غلامی کی زنجیریں کاٹیں اور انسانیت کو وہ شرف بخشا‘ جس کی وہ مستحق ہے۔ یہ بات بھی بہت قابل غور ہے کہ زنجیریں کاٹنے والے نے محض قانون سازی ہی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ اس وقت بھی روشنی کے مینار تعمیر کیے‘ جب قانون اور حکمرانی ان کے پاس نہیں تھی۔ مکہ مال تجارت کی طرح غلاموں کی بھی بہت بڑی منڈی تھی۔ اسی منڈی میں ایک بچہ فروخت ہوا‘ جسے مکہ کے سردار حکیم بن حزام نے خرید لیا اور پھر اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہؓ کو ہدیہ میں دے دیا۔ مستقبل کا یہ عظیم انسان چار سو درہم میں بکا تھا۔ اس کا نام زیدؓ بن حارثہ تھا۔ زیدؓ ایک معزز قبیلہ بنو قضاعہ کے سردار حارثہ بن شراحبیل کے بیٹے تھے‘ جنہیں ان کے ننھیال سے کچھ غارت گروں نے حملہ کر کے اٹھا لیا اور پھر مکے میں لا کر فروخت کر دیا تھا۔ خدیجہؓ کے گھرانے میں زیدؓ کو دنیا کے سب سے بڑے انسان کی سرپرستی اور شفقت ملی تو اپنا غم بھول گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ جس گھر میں وہ آیا ہے‘ یہاں ماں کی ممتا کا بدل بھی موجود ہے اور شفقت پدری کا نعم البدل بھی۔

بنو قضاعہ کا ہونہار بچہ اچھے ماحول میں پرورش پارہا تھا ‘مگر ادھر اس کے والدین اور عزیز واقارب سخت اذیت اور کرب میں مبتلا تھے۔ ان کے والدین نے عرب کا ہر کونہ چھان مارا مگر ان کا لختِ جگر کہیں سے نہ مل سکا۔ اسی دوران نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے تاجِ نبوت پہنایا۔ آپؐ نے اپنی دعوت سب سے پہلے اپنے قریبی لوگوں تک پہنچائی۔ اولین چار خوش قسمت انسان جو شمع رسالت کے پروانے بنے‘ ان میں زید بن حارثہؓ کا نام بھی شامل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آزاد کر دیا اور اپنا متبنّٰی (منہ بولا بیٹا) بنا لیا۔ بنو قضاعہ کے کچھ لوگ مکے میں آئے۔ انہیں معلوم تھا کہ حارثہ کا بیٹا گم ہو گیا ہے۔ وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں مکہ کے بازار میں گھوم پھر رہے تھے کہ زیدؓ کو دیکھا تو پہچان لیا۔ واپس جا کر ان کے والد کو بتایا تو وہ فوراً اپنے بھائی کو ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اپنا مدعا بیان کیا تو آپ نے ان دونوں بھائیوں کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور فرمایا: ''میں تم سے کوئی قیمت وصول نہیں کروں گا۔ زیدؓ کو بلاتا ہوں‘ جس طرح وہ کہے گا‘ اس کے مطابق فیصلہ کر لیں گے‘‘۔ 

حضرت زیدؓ کو بلایا گیا اور جب معاملہ ان کے سامنے آیا تو انہوں نے کہا: ''میں اس گھر اور اس شخص کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا‘‘۔ باپ اور چچا سخت مایوس ہوئے اور اپنے فرزند سے کہا: ''اے زید! افسوس کی بات ہے کہ تم آزادی پر غلامی کو اور اپنے اہل وعیال پر غیروں کو ترجیح دے رہے ہو‘‘۔ حضرت زیدؓ نے جواب میں کہا: ''میں اس شخص کی ان خوبیوں کو خوب جانتا ہوں‘ جو بے مثل ہیں۔ میں اس پر کبھی بھی کسی اور کو ترجیح نہیں دوں گا۔‘‘ یہ وہ موقع تھا جب خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ''زیدؓ! تمھارے والد اور چچا تمہیں لینے آئے ہیں‘ اگر تم چاہو تو ان کے ساتھ چلے جاؤ‘‘۔ مگر حضرت زیدؓ نے بلاتوقف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ حضرت زیدؓ کے والد نے بیٹے کی جدائی میں بڑے دردناک اشعار کہے تھے۔ ان اشعار کو ایک نظر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ بیٹے کی جدائی میں باپ کے دل پر کیا گزری۔ اسی سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اگر باپ کا یہ عالم تھا تو اس کی ماں کی کیفیت کیا ہو گی۔ یہ اشعار بڑے متاثر کن ہیں‘ ذیل میں ان کا ترجمہ دیا جارہا ہے:؎
''٭میں زید پر آنسو بہا رہا ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے۔ آیا وہ زندہ ہے کہ اس کی واپسی کی امید رکھی جائے یا وہ زندگی کھو بیٹھا ہے (کہ صبر کیا جائے)۔

٭سورج کے طلوع کے ساتھ مجھے اس کی یاد تڑپا دیتی ہے اور غروبِ آفتاب کے وقت بھی اس کی حسین یادیں پریشان کر دیتی ہیں۔ 

٭ہوائیں جب چلتی ہیں تو وہ بھی اس کی جدائی کے زخم تازہ کر دیتی ہیں۔ ہائے اس کی جدائی‘ کہ میرے غم اور خوف کے ماہ وایام طویل ہوتے جارہے ہیں۔ 

٭میں اپنے اونٹ کو زمین کے آخری کناروں تک دوڑاؤں گا اونٹ تھکتا ہے تھک جائے میں اس کی تلاش سے پیچھے نہیں ہٹوں گا‘‘۔

حافظ محمد ادریس  

Post a Comment

0 Comments