۱- سعد بن معاذؓ : صحیح مسلم میں حضرت سعد بن معاذؓ کے جو مناقب بیان ہوئے ہیں‘ ان کے مطابق آنحضورﷺ نے ان کے شہادت کے بعد فرمایا: ''سعد ‘ اللہ کا ایسا نیک بندہ ہے‘ جس کی آمد کی خوشی میں عرشِ الٰہی جھوم اٹھا۔ آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے اور سترہزار فرشتے ان کے جنازے کے لیے اترے۔‘‘ اس موقع پر تمام صحابہ حتیٰ کہ آنحضورؐ‘ ابوبکرؓ وعمرؓ بھی زاروقطار رو رہے تھے۔ حضرت سعدؓ کا جنازہ بہت چھوٹا تھا‘ جس پر منافقین نے کہا کہ بنوقریظہ کے فیصلے کی وجہ سے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں۔ آنحضورؐ نے فرمایا: ''ان بدبختوں کو کیا معلوم ہے کہ فرشتے ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر شہید کے جنازے کو کندھا دے رہے تھے‘‘۔ حضرت سعدؓ کی شہادت کے بعد آنحضورؐ ان کو یاد کرتے تھے۔ صحابہ کرام بھی اکثر ان کا تذکرہ کرتے تھے۔
ایک مرتبہ آنحضورؐ نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور فرمایا: ''اگر قبر کی تنگی سے کسی کو نجات مل سکتی تو سعد بن معاذؓ کو ملتی۔‘‘ آنحضورؐ نے حضرت سعدؓ کے جنتی ہونے کی بشارت ان کی زندگی میں بھی دی اور ان کی زندگی کے بعد بھی۔ ایک مرتبہ آپ کے پاس نہایت قیمتی ریشمی چادریں آئیں ‘جن کی نرمی اور ملائمت کو دیکھ کر صحابہ حیران رہ گئے۔ آنحضورؐ نے فرمایا : ''جنت میں حضرت سعد بن معاذؓ کے پاس جو رومال ہیں‘ وہ ان سے کہیں زیادہ نرم اور ملائم ہیں۔‘‘ جنگ ِخندق میں عددی لحاظ سے؛ اگرچہ بہت تھوڑا نقصان ہوا‘ مگر حضرت سعدؓ کی شہادت سے مدینہ کی اسلامی ریاست کو اتنا بڑا دھچکا لگا کہ اسے دیر تک محسوس کیا جاتا رہا۔ انصار کے درمیان حضرت سعد بن معاذؓ کی مثال حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تھی‘ انہیں صدیقِ انصار بھی کہا جاتا تھا۔
۲- انس بن اوس بن عتیکؓ : یہ دوسرے شہید ہیں ‘جو قبیلہ اوس کی شاخ بنو عبدالاشہل میں سے تھے۔ بڑے خوش خلق اور فیاض آدمی تھے۔ جنگ ِبدر میں شریک نہ ہو سکے۔ احد میں شرکت کی اور مردانہ وار دشمن کا مقابلہ کیا۔ جنگ ِخندق میں خندق کی کھدائی سے لے کر حملہ آور فوجوں کے مقابلے تک ہر میدان میں پیش پیش رہے۔ جب کفار خندق عبور کرنے کی تمام کوششوں میں ناکام رہے تو انہوں نے دور سے مسلمان فوجوں پر تیر برسائے۔ ایسے ہی ایک موقع پر قریش کے گھوڑ سوار دستے کے کمانڈر خالد بن ولید نے تاک کر ایک تیر مارا جو حضرت انس بن اوسؓ کو آ لگا‘ اسی تیر کی وجہ سے ان کی شہادت ہوئی۔
۳- حضرت عبدﷲ بن سہلؓ : حضرت عبدﷲ بن سہل انصاریؓ بھی قبیلہ اوس کے نامور فرزند تھے۔ ان کا نام عبدﷲ بن سہل بن رافع بھی لکھا گیا ہے اور عبدﷲ بن سہل بن زید بن عامرؓ بھی منقول ہے۔ ان کا تذکرہ غزوہ احد کے احوال میں بھی ملتا ہے۔ یہ سن شباب میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور عالم جوانی ہی میں شہادت کا مرتبہ پایا۔ جنگ ِ بدر میں بھی ان کو شرکت کا شرف حاصل ہے۔ ان کے بھائی رافع بن سہل بن رافع ان کے ساتھ جنگ احد میں شدید زخمی ہوئے تھے‘ مگر زخمی ہونے کے باوجود دونوں بھائیوں نے جنگ ِاحد کے بعد آنحضور کے حکم کی تعمیل میں حمر الاسد تک کا سفر کیا تھا۔ سواری نہ ہونے کی وجہ سے ایک بھائی جو زیادہ زخمی تھا‘ اسے دوسرے بھائی نے اکثر سفر اپنے کندھوں پر اٹھا کر طے کیا۔ جنگ ِخندق میں حضرت عبدﷲ بن سہل زخمی ہوئے اور جام شہادت نوش کیا۔
۴- طفیل بن نعمانؓ : یہ صحابی بنو خزرج کی شاخ بنی سلمہ میں سے تھے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں انہوں نے مکہ آ کر آنحضورﷺ کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ اس طرح انہیں بزرگ اور کبار صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ حضرت طفیلؓ نرم خو اور شیریں زبان تھے‘ مگر میدان ِجنگ میں مردانگی اور شجاعت کا بہترین نمونہ پیش فرمایا کرتے تھے۔ جنگ ِبدر میں شریک ہوئے اور داد شجاعت دی۔ غزوۂ احد میں ان کی شرکت کے بارے میں اختلاف ہے۔ جنگ ِخندق میں انہوں نے کافروں کا خوب مقابلہ کیا۔ حملہ آور فوجوں کو خندق کے اس پار روکنے اور دن رات چوکنا رہ کر پہرہ دینے کا فرض بحسن و خوبی ادا کیا۔ حضرت حمزہؓ کے قاتل وحشی نے خندق کے پار سے اپنا نیزہ پھینک کر انہیں زخمی کیا‘ اسی زخم کے نتیجے میں حضرت طفیلؓ نے شہادت پائی۔
۵- ثعلبہ بن غنمہ بن عدیؓ: یہ بھی انصار کے قبیلہ خزرج میں سے تھے۔ انہیں بھی بیعت عقبہ میں شرکت کا شرف حاصل ہے۔ قبول اسلام کے وقت ان کی عمر اٹھارہ انیس سال تھی۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے قبیلے بنو سلمہ کے بت خانے میں گھس کر بتوں کو توڑ دیا تھا۔ اور یہ کارنامہ انہوں نے ایک بار نہیں کئی بار انجام دیا تھا۔ ان کے دو ساتھی حضرت معاذ بن جبلؓ اور عبدﷲ بن انیسؓ بھی بت شکنی میں ان کے شریک رہتے تھے۔ حضرت ثعلبہؓ نے بدر اور احد دونوں جنگوں میں حصہ لیا۔ جنگ ِخندق میں ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
۶- حضرت کعب بن زیدؓ : حضرت کعب بن زید خزرجؓ کے معروف خاندان بنو نجار میں سے تھے۔ ان کا شمار سابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ انہوں نے جنگ بدر میں حصہ لیا تھا۔ پھر واقعہ بئر معونہ میں بھی وہ شریک تھے۔ اس درد ناک واقعہ کی تفصیلات سیرت ِنبوی کے ہر مجموعے میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ بئر معونہ میں بنو عامر نے آنحضورؐ کے ستر صحابہ کو دھوکے سے شہید کر دیا تھا۔ بئر معونہ سے جو دو صحابہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ان میں ایک حضرت کعب بن زیدؓ تھے اور دوسرے عمرو بن امیہ ضمری تھے۔ حضرت کعب کو تو دشمن اپنے خیال میں قتل کر چکے تھے ‘مگر وہ زخمی ہو کر لاشوں کے ڈھیر میں دب گئے تھے۔ موقع پا کر وہ کسی نہ کسی طرح مدینہ منورہ پہنچ گئے تھے اور ﷲ تعالیٰ نے انہیں زخموں سے شفا عطا فرما دی۔ جنگ ِخندق میں شہادت ان کا مقدر ٹھہری۔
پانچ ہجری میں جنگ خندق کا واقعہ پیش آیا تو اس میں حضرت کعب بن زیدؓ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوئے‘ اسی جنگ میں بعض روایات کے مطابق ‘کسی نامعلوم تیر سے ان کی شہادت ہوئی ‘جبکہ محمد احمد باشمیل نے واقدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ تیر ضرار بن خطاب فہری نے پھینکا تھا۔ بہرحال اسی تیر کے نتیجے میں حضرت کعب نے جام شہادت نوش فرمایا۔ مندرجہ بالا چھ صحابہ کی شہادت پر تو سب مؤرخین کا اتفاق ہے۔ ان کے علاوہ دو صحابہ کرام کا تذکرہ نورالدین علی بن ابراہیم نے سیرت الحلبیہ میں کیا ہے۔ ان دو صحابہ کے نام حضرت سلیط اور حضرت سفیان بن عوف بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت سلیطؓ کی تو ولدیت بھی کتابوں میں منقول نہیں ہے۔ ان دو صحابہ کے احوال کے بارے میں کتب تاریخ خاموش ہیں۔ بعض مؤرخین اور محققین نے جنگ ِ احزاب میں چھ ہی صحابہ کی شہادت کو تسلیم کیا ہے۔
صحیح رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ دونوں صحابہ براہِ راست دشمن کے مقابلے میں تو شہید نہیں ہوئے ‘مگر انہیں دشمن کے فوجیوں نے اس وقت شہید کر دیا‘ جب یہ دشمن کے احوال معلوم کرنے کے لیے مدینہ سے باہر نکلے تھے۔ نورالدین علی بن ابراہیم اپنی سیرت کی دوسری جلد میں ص ۱۰۱ پر لکھتے ہیں کہ ان دونوں صحابہ کو آنحضورؐ نے دشمن کی مخبری کے لیے بھیجا تھا ‘جس کے دوران میں یہ دونوں حضرات دشمن کے ہتھے چڑھ گئے اور انہوں نے انہیں شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے جسم آنحضورؐ کے پاس لائے گئے تو آپ نے ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کر دیا۔ (بحوالہ: غزوۃ الاحزاب‘ از محمد احمد باشمیل ‘ ص ۲۷۶)ان کے علاوہ مسلمانوں کے دو دستے رات کو غلطی سے ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر آپس میں بھڑ گئے‘ جس کے نتیجے میں کچھ لوگ زخمی اور کچھ قتل ہو گئے۔
یہ واقعہ اکثر مؤرخین نے بیان کیا ہے۔ جب ان لوگوں کو حقیقت حال کا پتا چلا تو انہیں بڑی ندامت اور افسوس ہوا۔ آنحضورؐ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا : ''کہ تم میں سے جو قتل ہو گئے ہیں ‘انہین شہادت کا رتبہ مل گیا ہے اور جنہیں زخم لگے ہیں‘ وہ بھی مجروحین فی سبیل اﷲ ہیں۔‘‘ ذہن نشین رہے کہ اس جنگ میں کافروں کے چار آدمی قتل ہوئے اور ان کے نام حسب ذیل ہیں:۔ ۱- عمرو بن عبدود: یہ قریش کے خاندان عامر بن لوئی میں سے تھا۔ حضرت علیؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔۲- حسل بن عمرو بن عبدود: یہ مقتول اول کا بیٹا تھا۔ ابن ہشام کی روایت کے مطابق‘ یہ بھی اپنے باپ کی طرح سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔۳-منبہ بن عثمان بن عید: یہ بنو عبدالدار میں سے تھا۔۴- نوفل بن عبداﷲ بن مغیرہ: اس کا تعلق بنو مخزوم سے تھا۔ اسے حضرت زبیر بن عوامؓ نے قتل کیا۔ (سیرۃ ابن ہشام‘ القسم الثانی‘ ص۲۵۲-۲۵۳‘ البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ طبع دارِ ابن حزم‘ بیروت‘ ص۷۳۶)
0 Comments