جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں

ملاوٹ دراصل کسی شے میں اس جنس کی کسی ناقص، کمتر یا کسی دوسری چیز کی آمیزش کا نام ہے۔ اس لعنت سے ہماری جان چھوٹ جائے تو  آدھے سے زیادہ بیماریاں خودبخود ختم ہو جائیں۔ دین متین نے ملاوٹ کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ جامع ترمذی میں صحیح حدیث شریف منقول ہے کہ ’’حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں، رسول اللہﷺ غلے کے ایک ڈھیر پر سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل فرما دیا، آپ کی مبارک انگلیاں تر ہو گئیں تو استفسار فرمایا۔ یہ کیا ہے؟ غلے والے نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ بارش سے بھیگ گیا ہے، آپﷺ نے فرمایا اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا کہ لوگ دیکھ سکیں؟ پھر آپ نے فرمایا، جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں‘‘ حدیث مبارکہ کی روشنی میں اگر من حیث القوم ہم اپنا جائزہ لیں تو کیا سوائے شرمندگی اور اس وعید کے ہمارے ہاتھ کچھ آئے گا کہ ’’ہم میں سے نہیں‘‘؟

آج کیا نہیں ہو رہا دودھ تو کیا کوئی شے بھی خالص دکھائی نہیں دیتی۔ حتیٰ کہ سبزیوں تک کو غلیظ اور کیمیکل زدہ پانی سے اگا کر زہر آلود کر دیا گیا۔ بچوں کیلئے جنک فوڈ بنانے کی فیکٹریاں گلی محلوں میں قائم ہیں جو اپنی ٹافیوں اور کینڈیز کے لئے مہنگا فوڈ کلر استعمال کرنے کی سکت نہیں رکھتیں تو کپڑے رنگنے والے رنگ کا استعمال کر کے نئی نسل کی رگوں میں سنکھیا بھر رہی ہیں۔ ملاوٹ زدہ اشیائے خورونوش کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے تو ایک دفتر درکار ہے۔ اس سے زیادہ بےحسی ایک مسلم معاشرے میں کیا ہو گی کہ بھینسوں کو انجکشن لگا کر زیادہ دودھ حاصل کیا جاتا ہے جسے پینے والے بچے بچیاں اپنی عمر سے بہت پہلے بالغ ہوتے جا رہے ہیں۔ 

اناج غیرخالص، گوشت میں پانی کے انجکشن لگا کر وزن بڑھایا جا رہا ہے، شہریوں کو مردہ جانوروں اور گدھوں تک کا گوشت تو کھلا دیا گیا پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ مغرب میں ہزار برائیاں سہی ملاوٹ وہاں ایک جرم عظیم ہے جس پر قانون کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا ہمارے ہاں کوئی قانون کی گرفت میں آتا نہیں تو کیا ہمارے ہاں قوانین موجود نہیں؟ ایسا ہرگز نہیں وطن عزیز میں اشیائے خورونوش سے متعلق 60 سے زائد قوانین موجود ہیں اس نوعیت کے دیگر قوانین کو بھی شامل کر لیا جائے تو تعداد 104 تک جا پہنچتی ہے۔ اس کے باوجود پوری قوم زہر خورانی کا شکار ہے۔ اس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔  

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments