ﷲ تعالیٰ نے اپنی منشاء و مرضی کے مطابق کائنات کی تخلیق کی، اس کو بسانے کے لیے اپنی مخلوقات یعنی ملائکہ، جنّات، انسان و شیاطین وغیرہ پیدا کیے۔ پروردگار عالم کی سب سے اشرف اور افضل مخلوق اور خلقت کا سرسبز و شاداب پُھول انسان ہے، اور صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جسے خالقِ کائنات نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے علاوہ تمام مخلوقات کو لفظ ’’ کُنْ ‘‘ سے وجود بخشا۔ ﷲ رب العزت نے انسانوں میں سب سے پہلے حضرت آدمؑ کی تخلیق کی اور ان کی عظمت و رفعت کا اظہار کرنے کے لیے تمام ملائکہ کو حضرت آدمؑ کے سامنے سر بہ سجود ہونے کا حکم دیا۔
ارشاد باری کا مفہوم ہے: ’’اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا: آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔‘‘ (سورۃ البقرۃ) ابلیس کے علاوہ تمام فرشتے اپنے رب کا حکم بجا لائے۔ ابلیس نے اپنی خلقت کو حضرت آدمؑ سے برتر سمجھا اور سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ﷲ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو بہت حسین و جمیل بنایا۔ جب حضرت آدمؑ کی تخلیق حسن و جمال کا آئینہ ہے تو اولادِ آدم کی تخلیق بھی احسنِ تقویم ہے۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’بے شک ہم نے انسان کو سب سے حسین صورت پر پیدا کیا۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: ’’اور تمہاری صورتیں بنائیں، تو حسین صورتیں بنائیں۔‘‘ ﷲ تعالیٰ نے اولادِ آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر فضیلت دی، اولادِ آدم کی عظمتوں کا اظہار کیا اور اس پر اپنی نعمتوں کا بیان کیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’بے شک ہم نے اولادِ آدم کو فضیلت دی اور ان کو خشکی اور سمندر کی سواریاں دیں اور ان کو طیّب چیزوں سے رزق دیا، اور ان کو ہم نے اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر فضیلت دی۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل)
اسلام میں تکریم انسانیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس آیتِ مبارکہ سے بھی انسان کی عزت، عظمت، بڑائی اور وقار کا اظہار ہوتا ہے۔ اس آیت میں تکریمِ انسانیت کا درس بھی ہے۔ انسان کی تکریم و تعظیم اعلیٰ سطح پر ضروری و لازمی ہے۔ انسان کی قدر و قیمت اور حُرمت کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کسی شخص کا بغیر کسی وجہِ شرعی کے ایک فرد کے قتل کرنے کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے تکریم انسانیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے بغیر جان کے بدلے کے یا بغیر زمین میں فساد پھیلانے کی سزا کے کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔ ‘‘ (سورۃ المائدۃ) اس آیت مبارکہ میں انسانی جان کی حرمت کا مطلقاً ذکر کیا گیا ہے جس میں کسی قسم کی تخصیص نہیں کی گئی۔ جب ایک عام انسان کے قتل کی حرمت کا عالم یہ ہے کہ اس کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے تو مسلمان کی حرمت کا عالم کیا ہو گا۔ اسلام ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا خیر خواہ قرار دیتا ہے، اس کی عزت و تکریم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ مسلمانوں کوایک دوسرے کی جان و مال و عزت کا محافظ بتاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک مسلمان کی جان دوسرے مسلمان پر حرام قرار دیتا ہے۔
رسول اکرمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ظلم نہیں کرتا، نہ اسے اکیلا چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف طرف اشارہ فرمایا۔‘‘ (بخاری) ایک روایت میں مسلمان کو گالی دینا فسق کی علامت بتایا گیا ہے اور اس کو ناحق قتل کرنا کفر بتایا گیا ہے۔ مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی و احادیث رسول ﷲ ﷺ سے مسلمان کی عزت و تکریم و تعظیم کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کے نزدیک مومن کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی اہمیت کعبۃ ﷲ سے بھی زیادہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔
دینِ فطرت میں مومن کی تکریم صرف اس کی حیات تک محدود نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی اس کی تکریم و تعظیم لازم ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ مرنے کے بعد اس کی حُرمت کو پامال کرنا جائز قرار دیا گیا ہو۔ اسلام مومن کی عزت و آبرو کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ سیرتِ طیّبہ کے روشن پہلو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین بھی آپؐ کی اتباع میں ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مُردے کی ہڈی توڑنا ا ور اسے ایذا پہنچانا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی کو توڑنا۔‘‘ (ابُوداؤد)
جس طرح مومن کی حیات میں اس کی ہڈی توڑنا حرام ہے اسی طرح بعد از وفات بھی اس کی ہڈی توڑنا حرام ہے۔ یہاں تک کہ مومن کی وفات کے بعد اس کے بال کاٹنا یا ناخن تراشنا بھی منع ہے کیوں کہ اس سے مردے کو تکلیف ہوتی ہے۔ مومن کی تکریم بعد از وفات پر اس حد تک تنبیہ کی گئی ہے کہ مومن کی قبر پر بیٹھنے یا اس سے ٹیک لگانے سے بھی اسے تکلیف ہوتی ہے گویا وہ اس میں اپنی توہین محسوس کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’بے شک آدمی کو آگ کی چنگاری پر بیٹھا رہنا یہاں تک کہ وہ اس کے کپڑے جلا کر جلد تک پہنچ جائے، اس کے لیے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
دین اسلام کے روشن پہلو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ کسی بھی مومن کی تحقیر و تذلیل یا اس کی عزت پامال کرنا اور دنیا کے سامنے اسے رُسوا کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ نیز مومن کی وفات کے بعد بھی اس کے جسم کی تعظیم و تکریم دینِ اسلام کا لازمی جزو ہے۔ ﷲ تعالی ہم سب کو اپنے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
0 Comments