حسد سے سے کیسے بچیں ؟

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

حسد سے سے کیسے بچیں ؟

کسی بُرائی کو چھوٹا سمجھنا نادانی اور اسے اختیار کرنا حماقت ہے۔ برائی تو بہ ہر حال برائی ہے اور اس کے نقصانات مسلّم ہیں۔ ہر برائی نقصان دہ ہے۔ کبھی یہ نقصان دنیا ہی میں نظر آجاتا ہے اور کبھی آخرت تک موقوف ہو جاتا ہے۔ حسد یا جلن ایک ایسی ہی بیماری ہے، جس کا شکار دنیا میں ہی مختلف ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یعنی حاسد کی سزا کا عمل اس دنیا ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ حسد کے لغوی معنی کسی دوسرے کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے نقصان کے درپے ہونا ہے۔ کسی کی ترقی سے دل میں گھٹن محسوس ہونا اور ناخوش ہونا۔ اس کے نقصان کی تمنا کرنا یا نقصان ہو جانے پر خوش ہونا حسد کہلاتا ہے۔

قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالی کا مفہوم ہے : ’’پناہ مانگتا ہوں حسد کرنے والے سے ، جب وہ حسد کرے۔‘‘ ( الفلق)

’’ کیا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اﷲ نے ان کو اپنے فضل سے عطا کیا۔‘‘ (النساء).

’’ پس عنقریب وہ کہیں گے، بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔‘‘ ( الفتح )

حسد کی مذمت میں نبی اکرم ﷺ سے مختلف احادیث مروی ہیں۔
حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور حسد نہ کرو اور نہ غیبت کرو۔ اور ﷲ کے بندے بھائی بھائی ہو کے رہو۔ اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے۔‘‘ (یعنی قطع تعلق کرے)
(صحیح بخاری)

حضور اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’ کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے۔ ‘‘ (سنن نسائی )

نبی کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’تمہاری طرف پچھلی قوموں کی برائیاں حسد اور بغض سرائیت کر آئیں گی جو مونڈ ڈالیں گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈ دیں گی۔ بل کہ یہ دین کو مونڈ دیں گی۔‘‘

(سنن ترمذی)
غصے سے کینہ اور کینے سے حسد پیدا ہونا لازمی ہے۔ اور حسد ہلاک کرنے والی بلا ہے۔ حضور پاک ﷺ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے۔ جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ تین چیزیں ایسی ہیں جو ہر کسی میں ہوتی ہیں۔ بدگمانی، حسد اور بُری فال۔ آپ ﷺ نے اس کا علاج تجویز فرماتے ہوئے فرمایا: ’’ اعتماد نہ کرو اور حسد پیدا ہو تو دست و زبان کو اس پر عمل کرنے سے بچاؤ۔‘‘

رسول کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’ اے مسلمانو! تم میں وہ چیز پیدا ہو گئی ہے جو تم سے پہلے متعدد قوموں کی ہلاکت کا باعث بن چکی ہے، وہ چیز حسد اور عداوت ہے۔ قسم ہے رب محمد ؐ کی تم لوگ بغیر ایمان جنّت میں نہیں جا سکتے اور ایمان کا دار و مدار ایک دوسرے کے ساتھ محبت میں ہے۔ اور میں تمہیں بتاؤں کہ محبت کا راز کس چیز میں ہے؟ ایک دوسرے کو سلام کرو اس سے محبت بڑھے گی۔‘‘

حضرت موسی ؑ نے ایک شخص کو عرش کے سائے میں دیکھا۔ انہیں اس مقام کی خواہش ہوئی پوچھا کہ اے ﷲ یہ صاحب کون ہیں؟ فرمایا کہ اس نے کبھی حسد سے کام نہیں لیا، اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کی اور چغل خوری سے اپنے آپ کو بچایا۔ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ حاسد ہی نعمت کا دشمن ہے۔ وہ میرے حکم سے خفا ہوتا ہے اور اپنے بندوں کی جو قسمت میں نے پیدا کی ہے اسے پسند نہیں کرتا۔

حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ دو چیزوں میں حسد نہیں ایک تو یہ کہ اﷲ تعالیٰ کسی کو علم اور مال عطا فرمائے اور وہ اپنے مال کو علم کے مطابق استعمال کرے دوسرے یہ کہ کسی کو علم تو ملا ہو لیکن مال نہ ہو اور اس کی خواہش یہ ہو کہ اگر مجھے بھی اﷲ تعالیٰ مال عطا فرماتا تو میں بھی اسی طرح خرچ کرتا۔ یہ دونوں شخص ثواب کے اعتبار سے برابر ہیں۔

اور اگر کوئی شخص مال کو لغو اور گناہ کے کام میں خرچ کرے اور کوئی دوسرا کہے کہ اگر میرے پاس ہوتا تو اسی طرح اڑاتا تو یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ جس پر خشیتِ الہی کا غلبہ ہو کسی کو دوست اور دشمن نہ سمجھے بلکہ سب کو اﷲ کا بندہ سمجھ کر تمام چیزوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے۔ لہذا دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے حسد جیسی بیماری کو جاننا اور اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ ﷲ تعالی ہمیں حسد جیسی بَلا سے اپنی پناہ میں رکھے، اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے تمام احکامات پر عمل پیرا ہوکر اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکیں۔ آمین

عظمیٰ علی   

Post a Comment

0 Comments