نور الدین زنگی اپنے باپ کے مثل بہادر اور جری حکمران تھا۔ اسلام سے محبت کرتا تھا اور اپنی زندگی اس کے سانچے میں گزارتا تھا۔ خلاف شرع کام کرنے کا سخت مخالف تھا۔ اسلام کے لیے اس کے کارنامے بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ وہ شریعت کے مطابق خود بھی زندگی گزارتا اور ماتحتوں کو بھی اس کا پابند بناتا۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے لوگوں میں دین پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا اور ایک اچھی اسلامی فضا قائم ہوتی گئی۔ وہ حکمرانی اور اسلامی احکامات کی پابندی کے ساتھ ساتھ فلاحی کام بھی بڑے ذوق شوق سے کرتا تھا۔ وہ صرف ایک فاتح نہیں تھا بلکہ ایک شفیق حکمران اور علم پرور بادشاہ تھا۔ اس نے سلطنت میں مدرسوں اور ہسپتالوں کا جال بچھا دیا تھا۔ اس کے انصاف کے قصے دور دور تک مشہور تھے۔ وہ بڑی ذاتی زندگی گزارتا تھا، بیت المال سے کبھی ذاتی ضرورت پوری نہیں کرتا تھا۔
اس نے اپنے لیے بڑے بڑے محل تعمیر نہیں کیے بلکہ بیت المال کا روپیہ مدرسوں، شفاخانوں اور مسافر خانوں کے قائم کرنے اور رفاہ عامہ کے دیگر کاموں میں صرف کرتا۔ دمشق میں اس نے ایک شاندار شفاخانہ قائم کیا تھا جس کی دنیا میں مثال نہ تھی۔ اس میں مریضوں کو دوا بھی مفت دی جاتی تھی اور کھانے اور رہنے کا خرچ بھی حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا تھا۔ نور الدین نے تمام ناجائز ٹیکس ختم کر دیے تھے۔ وہ مظلوموں کی شکایت خود سنتا اور اس کی تفتیش کرتا تھا۔ نور الدین کی ان خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک مورخ نے لکھا ہے کہ: “میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیز کے سوا نور الدین سے زیادہ بہتر حکمران میری نظر سے نہیں گزرا”۔
نور الدین زنگی کے جنگی کارناموں اور فتوحات کا مختصر خاکہ کچھ اس طرح سے ہے: اس نے مسیحیوں سے بیت المقدس واپس لینے کے لیے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے گرد و نواح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کر کے ان کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ شروع میں نور الدین کا دارالحکومت حلب تھا۔ 549ھ میں اس نے دمشق پر قبضہ کر کے اسے دارالحکومت قرار دیا۔ اس نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملے کر کے کئی قلعوں پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں ریاست ایڈیسا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کی عیسائیوں کی کوشش کو بھی ناکام بنا دیا۔ دوسری صلیبی جنگ کے دوران دمشق پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو بھی سیف الدین اورمعین الدین کی مدد سے ناکام بنا دیں اور بیت المقدس سے مسیحیوں کو نکالنے کی راہ ہموار کر دی۔
دوسری صلیبی جنگ میں فتح کی بدولت ہی مسلمان تیسری صلیبی جنگ میں فتح یاب ہو کر بیت المقدس واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔ اس زمانے میں مصر میں فاطمی حکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ہو گئی تھی اور مصر چونکہ فلسطین سے ملا ہوا تھا اس لیے مسیحی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ دیکھ کر نور الدین نے ایک فوج بھیج کر 564ھ میں مصر پر بھی قبضہ کر لیا اور فاطمی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رح نے اپنی کتاب “تاریخ مدینہ” میں نور الدین زنگی رح کا محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نرالے کردار سے متعلق ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔ “ایک رات نمازِ تہجّد کے بعد سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔
سلطان حیران ہو کر اٹھا۔ وضو کیا’ نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہو جائیں۔ ” اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ کے لیے سفر کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گئے۔ سلطان نے روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں بیٹھ گئے۔ اعلان کیا کہ تمام اہل مدینہ میں پہنچ جائیں جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا گیا۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔
سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ “کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے۔؟” جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟ اس بار حاضرین نے کہا۔ سوائے دو آدمیوں کے۔ ” راز تقریباً فاش ہو چکا تھا۔………. سلطان نے پوچھا۔ وہ کون ہیں اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے۔؟” بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں۔ دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔ سلطان نے کہا۔ “سبحان اللہ !” اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔
جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا۔ “الحمد للہ ! ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔ ” جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا۔ “تم کون ہو۔.؟ یہاں کیوں آئے ہو؟ ” انہوں نے کہا “ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ” سلطان نے سختی سے کہا۔ “کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟” اب وہ چپ رہے۔
سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ یہ کہاں رہ رہے ہیں؟” بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہو گیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔ نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا۔ “کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟؟؟” ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ مسیحی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔
اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا’ وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کر دیا۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے جس کا رخ روضہٴ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آ گیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔ سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ “میرا نصیب! کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا” سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کر دیا جائے اور روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے”.
سلطان کے حکم کی تعمیل میں روضۂ اطہر کے چاروں طرف اتنی گہری خندق کھودی گئی کہ زمین سے پانی نکل آیا، اس کے بعد اس میں سیسہ بھر دیا گیا تاکہ زمانہ کی دستبرد سے ہر طرح محفوظ رہے۔ یہ سیسے کی دیوار روضۂ اقدس کے گرد آج تک موجود ہے اور ان شاء اللہ ابد تک قائم رہے گی۔ آج بھی اہل اسلام سلطان نور الدین کا نام نہایت محبت اور احترام سے لیتے ہیں اور ان کا شمار ان نفوس قدسی میں کرتے ہیں، جن پر سید البشر نے خود اعتماد کا اظہار فرمایا اور ان کے محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی تصدیق فرمائی۔ نور الدین زنگی رح کا محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ وہ ہمیشہ اپنی زندگی کے نشیب و فراز میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کو ترجیح دیتے۔ ان کا یہ نصیب محض حکمران ہونے کی وجہ سے نہیں تھا۔
بلکہ انکی یہ خدمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے اور شریعت مطہرہ پر عمل کرنے کا ایک نتیجہ ہے اور رہتی دنیا کے حکمران طبقے کے لیے بالخصوص اور عام لوگوں کے لیے بالعموم ایک مثال ہے۔ یہ نتیجہ اور مثال ہمیں یہ درس دیتا ہے اور اس نہج پر پہنچاتا ہے کہ تمہاری دین اسلام کی خاطر کی گئی کوششوں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خالق کائنات ضرور کوئی اچھا بدلہ عطا فرمائیں گے۔ بس آج کا حکمران بھی نور الدین زنگی بن سکتا ہے بس ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ آج کے صلیبیوں اور صیہونیوں سے چھٹکارا حاصل کر کے اپنے آپ کو صرف حکم خداوندی کا تابع بنائے اور اس کا ہر حکم معاشرے میں نافذ العمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ یہ کام ایسے نہیں ہو سکتا کہ نعرہ تو ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کا لگایا جائے اور کام یہود و نصاری کی مرضی والے کیے جائیں۔ ہاں اگر آپ نعرہ ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کا نہیں بھی لگاتے مگر کام ریاست مدینہ والی ریاست کے کرتے ہیں تو آپ اس وقت کے نور الدین زنگی ہیں۔
0 Comments