ظرف کی دولت : اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ظرف کی دولت : اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو

ظرف کا مطلب یہ ہے کہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ کچھ ایسا کر کے دکھا دینا، جہاں آپ کی انا آپ کو آگے نہ بڑھنے دے۔ عموما انسان وہاں اپنا ظرف کھو دیتا ہے جب وہ اپنے سے کسی کم زور یا رشتے میں کسی چھوٹے سے معاملات کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جب انسان اپنے سے کسی بڑے کے سامنے بھی حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دیتا ہے اور معاف کر دیتا ہے تو یہ بھی اس کی اعلی ظرفی ہے۔ کسی بھی بڑے کا لحاظ کیے بغیر ترنت جواب دینا بہ ہر حال بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے جو کہ منع فرمایا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’جو چھوٹے پر رحم اور بڑے کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘

آج گھروں میں لڑائی جھگڑے، بے سکونی، ناروا اور منفی مقابلے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک جواب سوچ کر دینا، فضول کی بحث و مباحثہ میں پڑنا، ساس بہو، جیٹھانی دیورانی، افسر کلرک حتی کہ ماں بیٹی تک کا رشتہ جھگڑوں کی نذر ہو چکا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کیوں ہم عدم برداشت، غصے، دل میں پلنے والے کینے، بغض اور عداوت کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں اخلاقی پستی کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ بہ جائے اس کے کہ ہم اعلیٰ اخلاق اپنائیں ہم دوسرے سے زیادہ بُرا رویہ روا رکھ کر یہ بتاتے ہیں کہ ہم میں قوت برداشت کا عنصر موجود نہیں۔

ان سب باتوں کی بنیادی وجہ کم ظرفی اور شیطان کا ہمارے اوپر مکمل کنٹرول ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم شیطان سے اپنے آپ کو بچانا سیکھیں۔ ہر حال میں چاہے کوئی اچھا ہو یا بُرا اس کو قبول کرنا سیکھیں۔ صرف زبانی تعریفوں کے بہ جائے کسی کی خدمت کو دل سے قبولیت کا شرف بخشنا، کسی ناپسندیدہ شخص کے بارے میں اگر کچھ اچھا نہیں بول سکتے تو بُرا کہنے سے بھی اجتناب کرنا، چھوٹی چھوٹی باتوں کو سراہنا اور اعتماد دینا، یہ سب رویے ہمارے ذہن کے لیے توانائی کا کام کرتے ہیں۔ ایسے ہی کسی کے لیے اپنی ذاتی سوچ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حسن ظن سے کام لینا اور معاملہ کرنا ظرف کہلاتا ہے۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔‘‘ اس ایک ہی فرمان میں ﷲ کے نبی کریم ﷺ نے آداب معاشرت سکھا دی ہے۔ جب انسان وہی رویہ جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے دوسرے کے ساتھ بھی رکھے گا تو جھگڑا کس بات کا ہو گا۔ یہاں ایک بہت بڑا نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے، جب ہم کسی کے ساتھ مثبت رویے اور اپنے مثبت طرز تکلم اختیار کریں گے تو یہ عین ممکن ہے کہ اس کے دل دماغ پر ایک بار نہیں تو دسویں بار ضرور مثبت اثر پڑے گا، یہ مثبت اثر جب ایک اکلوتے بندے سے ایک دوسرے شخص تک پہنچے گا تو لازمی سی بات ہے کہ آہستہ آہستہ یہ اثر پورے گھر، محلے، معاشرے سے ہوتا ہوا ایک دن ضرور پوری دنیا میں پھیلے گا۔

ایک مرتبہ ایک جنگ کے دوران اسد ﷲ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی زد میں ایک کافر آگیا تو اس بدبخت نے آپؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ مگر آپؓ نے یہ فرماتے ہوئے اس کافر کی جان بخش دی کہ اگر اب میں نے اسے قتل کیا تو اس میں میرا غصہ بھی شامل ہو جائے گا۔ اسی کہتے ہیں اعلیٰ ظرفی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کسی کی دی ہوئی اذیت ہم شاید بھلا تو سکیں مگر معاف نہیں کر سکیں گے۔ یہاں سوچنے کا مقام ہے کہ روز قیامت ہم اپنے گناہوں کا بار اٹھائے ﷲ کے حضور معافی کے طلب گار بن کر کھڑے ہوں، اور ﷲ تعالی ہمیں دیکھ کر یہ فرمائیں کہ آج تمہیں معافی نہیں ملے گی اور تم نے یہ اور یہ اتنے بڑے گناہ کیے لہذا جہنم کی آگ میں گرنے کے لیے تیار ہو جاؤ تو سوچیے ہمارا کیا حال ہو گا۔

اس لیے رضائے الہی کی خاطر معاف کردینا چاہیے۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ سوچنا بھی نہیں چاہے گا کہ ہماری بخشش نہ ہو۔ ایسے ہی ہمیں بھی چاہیے کہ اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سے بڑے، چھوٹے یا برابر والے کی غلطی کو معاف کر دیں تاکہ روز قیامت ہمارے ساتھ بھی نرمی والا معاملہ فرمایا جائے جس دن ہمیں معافی کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی۔ نبی کریم ﷺ کی کتنی خوب صورت اور اﷲ پر توکل کو بڑھاتی ہوئی حدیث کا مفہوم ہے: ’’بے شک ﷲ نرمی کرنے والا ہے، نرمی کو پسند فرماتا ہے، نرمی پر جو کچھ عطا فرماتا ہے وہ سختی پر اور اس کے علاوہ کسی چیز پر عطا نہیں فرماتا۔‘‘ اب ہم میں سے کون ہے جو وہ انعام حاصل نہیں کرنا چاہتا جو اﷲ نے نرمی اور معاف کرنے والوں کے لیے رکھا ہے۔

صدف نایاب

Post a Comment

0 Comments