آزمائش میں صبر کی جزا : بڑے درجات بڑی آزمائشوں کے بعد

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

آزمائش میں صبر کی جزا : بڑے درجات بڑی آزمائشوں کے بعد

اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ ہم کبھی خیر دے کر آزماتے ہیں اور کبھی تکلیف دے کر۔ آزمائش بندے کے لیے بہ طور امتحان ہوتی ہے، یہ افراد کو پرکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ بدر کے موقع پر فکرمند تھے کہ دشمن کے پاس اسلحہ اور افرادی قوت زیادہ ہے۔ مقابلے میں ہم نہتے اور کم زور ہیں، تلواریں بھی پوری نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے پریشانی کے عالم میں دعا مانگ رہے تھے۔ عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب پیارے پیغمبرؐ دعا کر رہے تھے تو حضرت مقدادؓ تشریف لائے اور کہنے لگے: یارسول اللہ ﷺ آپ کس بات سے پریشان ہیں؟ ہم قوم موسیٰ کی طرح نہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ اے موسیٰ تُو اور تیرا رب جا کر لڑیں، ہم لڑنے والے نہیں ہیں۔

یارسول اللہ ﷺ ہم آپ کے چاروں طرف سے لڑیں گے، دائیں طرف سے بھی لڑیں گے اور بائیں طرف سے بھی، آپؐ کے سامنے سے آ کر لڑیں گے اور پیچھے سے بھی۔ چاروں طرف سے گھیر کر آپؐ پر ہم اپنی جانیں قربان کریں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ جب حضرت مقدادؓ نے تسلی دی تو اس وقت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی کھڑا تھا، میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کا چہرہ کِھل اٹھا اور پریشانی کے آثار زائل ہو گئے۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اسلام کو صحیح طرح سمجھتے تھے۔ جن پر اللہ کی طرف سے آزمائش آئے تو دوسرا تسلی دیتا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، گھبرانے کی بات نہیں۔ آزمائش کے ایام میں اور خوشی کے دنوں میں کی گئی باتیں زیادہ یاد رکھی جاتی ہیں۔ صرف حضرت مقدادؓ آپؐ کے ساتھ کھڑے ہیں اور باقی صحابہؓ پیچھے کھڑے ہیں۔ صرف ایک صحابیؓ کی حوصلہ مندی نے پیارے پیغمبرؐ کا چہرہ خوشی سے منور کر دیا۔ یہ بھی ایک کردار ہے اور یہی امتحان ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم انہیں آزماتے ہیں تاکہ یہ لوٹ آئیں۔ اللہ تعالیٰ صرف دیکھنا چاہتا ہے کہ یہ کس طرف لوٹتے ہیں، خیر کی طرف یا شر اور برائی کی طرف؟ ایمان کی طرف یا بزدلی کی طرف؟ تم سمجھتے ہو کہ ایسے ہی جنتی بن جاؤ گے؟ اپنی دکانوں میں منڈیوں میں بیٹھ کر تم جنّتوں کے وارث بن جاؤ گے۔
حالاں کہ ابھی تک تو اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کو اور جہاد کرنے والوں کو باقی لوگوں سے الگ ہی نہیں کیا۔ جنہوں نے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے علاوہ کسی کو جگری دوست ہی نہیں بنایا۔ تکلیفوں میں اللہ تعالیٰ نے پرکھنا ہے کہ تم صبر کرنے والے ہو یا بھاگ جانے والے ہو۔ مشکل حالات میں اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مومنوں کے ساتھ کھڑے رہے یا راہیں جدا کر لی تھیں۔ ابھی تک تم پر پہلے لوگوں کی طرح تکلیفیں نہیں آئیں۔ تم پر ان جیسی لڑائی مسلط نہیں کی گئی۔ وہ ہلا کر رکھ دیے گئے، ان کے دل منہ کی طرف آگئے۔

اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ ان کا ہلا کر رکھ دینا ان کے ایمان کی دلیل ہے۔ اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنوں کو انسانوں میں پھیر پھیر کر لاتے ہیں کہ کون گواہی دیتا ہے اور کون منہ موڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک موقع پر بنو نوفل اور بنو عبد شمس آکر کہتے ہیں کہ یارسول اللہ ﷺ آپ نے بنو عبد المطلب کو مال و متاع دیا اور ہم دو قبیلوں کو محروم رکھا، حالاں کہ ہم تینوں قبائل ایک ہی مرتبے پر ہیں اور ایک ہی درجے کے لوگ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جب قریشیوں نے ہمیں شعب ابی طالب میں محصور کر رکھا تھا، لوگوں نے سماجی بائیکاٹ کر دیا تھا، اس وقت بنو ہاشم کے ساتھ بنوعبدالمطلب کھڑے تھے۔ اس لیے تم دونوں اس مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے، جہاں بنو عبدالمطلب ہیں۔ افراد کو تکلیفوں میں ہی پرکھا جاتا ہے، کیوں کہ خوشی میں تو سارے ہی ساتھ ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ منافقوں کی یہ علامت ہے کہ جب مسلمانوں پر حالات بہتر ہوتے ہیں، سازگار ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ چلتے ہیں۔ جب کوئی پریشانی آتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ مخلص وہ ہے جو تکلیف میں آپ کا ساتھ دے۔ جب اندھیرے چھا جاتے ہیں تو دبک کر پیچھے نہیں بیٹھتے۔ پیارے پیغمبر ﷺ مکہ میں سر چھپاتے پھر رہے تھے، پریشانی بڑی تھی، تکالیف دی جا رہی تھیں۔ ہجرت کے سفر میں تین دن غار ثور میں گزار دیے، رات کو چھپتے چھپاتے مدینہ منورہ کا سفر کیا، کیا پیارے پیغمبر ﷺ حق پر نہ تھے؟ جتنی تکلیفیں پیارے پیغمبر ﷺ اور ان کے ساتھیوں پر آئیں کیا اور کسی پر آئی ہیں؟ حالاں کہ ہمارا تو گھر بھی محفوظ ہے، ہمارا کاروبار بھی محفوظ ہے اور بیوی بچے بھی محفوظ ہیں۔ جب مسلمانوں کو مشکل حالات کا پتا ہو تو کم زور کی کم زوری کا عذر سمجھنا چاہیے۔

رسول اللہ ﷺ بھی غار ثور میں چھپے رہے۔ یہ حالات امت مسلمہ پر بھی لازم آئیں گے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ اصل میں مسلمان کا امتحان لیتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان آزمائشوں میں مسلمان کا عقیدہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں دو طرح کے لوگ ملیں گے ایک وہ جو کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تہذیب کرنے کے لیے، انہیں درست کرنے کے لیے، تیز کرنے کے لیے، سیدھا کرنے کے لیے ایسا کیا ہے، جسے عربی میں تہذیب کہتے ہیں۔ کچھ قسم کے لوگ اسے تعذیب سمجھتے ہیں، تعذیب عذاب سے ہے۔ ایمان والا یہ سمجھتا ہے کہ اگر اللہ کے دین کی وجہ سے پریشانی آئی ہے تو یہ تہذیب ہے، تعذیب نہیں۔ یہ دلیل اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تہذیب کے لیے بھی آزماتا ہے۔ جس کا دماغ درست ہے اور برتن سیدھا ہے، وہ مثبت ہی سوچے گا، بہ صورت دیگر منفی سوچیں ہی آئیں گی۔

پیارے پیغمبر ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑے درجات بڑی آزمائشوں کے بعد دیتے ہیں۔ اللہ جب کسی قوم کو محبوب بناتا ہے تو آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ سنن ابی ماجہ کی روایت کا مفہوم ہے کہ مومنوں پر آزمائشیں آئیں گی، حتیٰ کہ کچھ ایسے مومن ہوں گے کہ وہ لطف محسوس کریں گے، لذت محسوس کریں گے۔ صحیح البخاری کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ خیر کرنا چاہتا ہے، اس پر آزمائشیں نازل کر دیتا ہے۔ آزمائش اور پریشانی کے حالات میں کہی ہوئی باتیں یاد رہتی ہیں۔ مومن آزمائشوں کی وجہ سے ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے، جب کہ منفی سوچ والا سوچتا ہے کہ اللہ نے اس پر تعذیب نازل کی ہوئی ہے۔ ان آزمائشوں پر اللہ تعالیٰ لوگوں کا تقدیر پر ایمان جانچتا ہے، کیوں کہ ان حالات میں وہ یہ جملے منہ سے ادا کرتا ہے کہ کاش میں ان کے ساتھ نہ ہوتا۔ منافقین ان حالات میں پیچھے ہٹ جاتے تھے اور مومن آکر دلاسہ دیتے تھے۔ اللہ نے اپنے دین کا کام لینا ہی ہے، اگر ہم نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری جگہ کوئی دوسری قوم لے آئے گا۔ اعمال حسنہ کی قبولیت کا راز خاتمہ بالخیر پر ہے، ساری زندگی تم اچھے طبقے کے ساتھ معاون بن کر کام کرتے رہے اور آخری عمر منہ موڑ گئے تو دلیل اس بات کی ہے کہ اللہ نے تمہارا خاتمہ اچھا نہیں کیا۔ یہ آزمائشیں تو گناہوں کا کفارہ ہے۔ مومن پریشانی کے عالم میں صبر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ آمین

مفتی عبداللطیف

Post a Comment

0 Comments