استادِ محترم کا سوال پوچھنا تھا کہ پوری جماعت میں اچانک خاموشی چھا گئی۔ تمام طلباء الجھن میں تھے، کبھی طلباء کی نظریں استاد کی طرف اٹھتیں تو کبھی بلیک بورڈ کی طرف، لیکن کسی طالب علم کے پاس استاد کے سوال کا جواب نہ تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔ استاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بغیر کچھ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ اس کے بعد طلباء سے مخاطب ہوئے ’’تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر ہی اس کی لمبائی کو کم کر دے گا؟‘‘ ۔ کلاس کے سب سے ذہین طالب علم نے آخر کار اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔ استادِ محترم ’’آپ اس لکیر کی لمبائی کو کم کرنے کا کہہ رہے ہیں جس کیلئے اس کو مٹانا پڑے گا لیکن ساتھ ہی آپ نے اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کیا ہے‘‘۔ جماعت میں موجود باقی تمام طلباء نے بھی گردن ہلا کر اس بات کی تائید کی۔ طلباء نہیں جانتے تھے کہ استاد کے سوال کا پہلو کچھ اور ہے۔
چنانچہ استاد نے گہری نظروں سے طلباء کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ استاد نے پچھلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دیا تھا۔ اس سوال میں تمام انسانیت کیلئے ایک بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے کہ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کئے بغیر، ان سے حسد کئے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے نکل جانے کا ہنر اس مختصر سے سوال کے جواب میں چھپا ہوا ہے۔ معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ آج بہت سے لوگ حسد میں مبتلا ہیں۔ کسی کی ترقی ہم سے برداشت نہیں ہوتی اور ہم بجائے اس کے کام سے کچھ سیکھنے کے اس کے حسد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
0 Comments