کرپشن : قوموں کی بربادی کا سبب

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

کرپشن : قوموں کی بربادی کا سبب

بدعنوانی ،خیانت، دھوکا دہی ، کارسرکار میں غبن، ناپ تول میں کمی یہ تمام کرپشن سے تعبیر کیے جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے جن نافرمان قوموں کی بربادی و ہلاکت کی عبرت ناک داستان بیان کی ہے، ان میں خطیب الانبیاء، حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ہے، جس کی تباہی کا سب سے بڑا سبب کفرو شرک کے بعد، اس میں پایا جانے والا کرپشن، غبن، ناپ تول میں کمی اور خیانت تھا۔ اس قوم کے جلیل القدر پیغمبر، ان کے معاشرے میں ایک طویل عرصے تک حق و اصلاح احوال کی صدا لگاتے رہے اور انہیں باربار غبن و کرپشن کی وبا سے نکلنے اور بچنے کی تلقین کرتے رہے۔ وہ کہتے رہے:’’اے میری قوم! ناپ تول کو مکمل انصاف کے ساتھ پورا کر کے دیا کرو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی (اورکرپشن) نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھیرو۔ (سورۂ ہود)

لیکن سرکشی میں مبتلا قوم پر ان پیغمبرانہ صداؤں کا کوئی اثر نہ ہوا، اس قوم کے رگ و ریشے میں خیانت وکرپشن اس طرح پیوست ہو گیا تھا کہ اصلاحِ حال کی یہ صدائیں، ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں،وہ جواب میں کہتی رہی’’اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہم سمجھ نہیں پاتے۔‘‘ جب وہ کسی طرح نہیں سدھرے اور مہلت کا عرصہ تمام ہوا تورب کی طرف سے پکڑ آئی اور ایک چیخ نے سرکشوں کو صفحۂ ہستی سے یوں مٹا دیا، جیسے وہ ان بستیوں میں کبھی آباد ہی نہ تھے۔ دیکھیے قرآن کریم کے الفاظ میں کس قدر جلال وعبرت ہے: ’’ان ظالموں کو ایک سخت آواز نے اس طرح پکڑ لیا کہ وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ کر ختم ہو گئے کہ گویا کہ ان دیار میں کبھی آباد ہی نہ تھے، سنو، قوم مدین ایسے ہی اللہ کی رحمت سے دُور ہوئی، جیسے قومِ ثمود ہوئی۔‘‘

کرپشن اور خیانت سے عالم میں فساد پھیلتا اور نسل انسانی کو نقصان ہوتا ہے۔جب کسی معاشرے کے اندر، دوسروں کے حقوق غصب کرنے، ان میں کمی کرنے اور خیال نہ رکھنے کی فضا پیدا ہوجائے توایسا معاشرہ ازخود فساد کی طرف بڑھتا ہے، ایسی ظالمانہ فضا میں پرورش پانے والے ہمیشہ دوسروں کا حق مارنے کی تگ ودو میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے ذمے دوسروں کے حقوق کی ٹھیک ادائیگی کی کبھی فکر نہیں کرتے، جس کی وجہ سے سماجی اور معاشرتی رویوں میں بگاڑ آتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں اور فساد کی نئی نئی شکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جس قوم کے اندر یہ خرابی پائی جائے گی، اللہ تعالیٰ اسے قحط اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا فرما دے گا۔‘‘

آج ہماری قوم مہنگائی اور ہوش رُبا گرانی کے جس عذاب سے دوچار ہے، وہ اسی کرپشن اور خیانت کا شاخسانہ ہے، جس کی آوازیں ہر سمت سے اٹھ رہی ہیں۔ شاید ہی کوئی شعبہ اور محکمہ ایسا ہو جو کرپشن سے خالی ہو۔ اگر کوئی دردمند اس کی نشاندہی کرتا ہے تو اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ نشاندہی خود اس کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ جس شخص کے پاس، جس قدر اختیار واقتدار ہے، اس کے کرپشن کا حجم عموماً اسی قدر بڑا ہوتا ہے۔ اس عمل کا نتیجہ گرانیِ اشیاء کے عذاب کی شکل میں ہم سب کے سامنے ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

جب تک صاحبِ اقتدار اور صاحبِ اختیار طبقہ اس وبا کو ختم نہیں کرے گا اور اصلاح احوال کے لیے فوری اقدامات اورکوشش نہیں کرے گا، گرانی، مہنگائی اور قحط کے عذاب سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ’’رشوت‘‘کا لین دین اور کسی بھی معاشرے میں اس کا عام ہونا اس معاشرے کی بربادی، استحصال، وہاں عدل و انصاف کے فقدان اور اس معاشرے کی تہذیب و ثقافت کے بگاڑ کا بنیادی سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ فطرت اور دین ِ انسانیت، اسلام میں رشوت کے حوالے سے سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے: رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

جب کہ قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائو۔‘‘ (سورۃ البقرہ) مزید فرمایا گیا:’’اللہ نے کتاب سے جو کچھ اتارا، اسے جو (لوگ ) چھپاتے ہیں اوراس کے ذریعے معمولی معاوضہ حاصل کرتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھرتے ہیں، اللہ ان سے قیامت کے دن بات نہ کرے گا، نہ انہیں پاک صاف کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔(سورۃ البقرہ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ”رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے“۔ (طبرانی) حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ کی لعنت ہے“۔ (ابن ماجہ)

صحابی رسول حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے رشوت لینے اور دینے والے اور رشوت کی دلالی کرنے والے سب پر لعنت فرمائی ہے“۔ (مسند احمد، طبرانی) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ تویہاں تک فرماتے ہیں کہ قاضی کا کسی سے رشوت لے کراس کے حق میں فیصلہ کرنا کفر کے برابر ہے، اورعام لوگوں کا ایک دوسرے سے رشوت لینا، ناپاک کمائی ہے۔ (طبرانی) یہی وجہ ہے کہ پوری امت رشوت کے حرام ہونے پرمتفق ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا: ترجمہ: اور نہ کھاوٴ مال ایک دوسرے کا آپس میں ناحق اورنہ پہنچاوٴ انہیں حاکموں تک کہ کھا جاؤ، کوئی حصہ لوگوں کے مال میں سے ظلم کر کے (ناحق) اور تمہیں معلوم ہے۔ (سورۃ البقرہ)

علامہ ابن کثیرنے اس آیت کی تفسیربیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ آیت ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس کسی کا حق ہو، لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو، اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کروالے اوراس طرح دوسرے کا حق غصب کر لے۔ یہ ظلم اور حرام ہے۔ عدالت کا فیصلہ ظلم اورحرام کو جائز اور حلال نہیں کر سکتا۔ یہ ظالم عنداللہ مجرم ہو گا۔ (ابن کثیر) یہ آیت اپنے ترجمے کے لحاظ سے رشوت کی ممانعت میں صاف وصریح ہے، کیوں کہ رشوت بھی ایک ایسا عمل ہے جس کا اثرحقوق عامہ پر براہ راست پڑتا ہے، اور اس کی وجہ سے حقدار کا حق مارا جاتا ہے۔ رشوت ہمارے معاشرے کا وہ بدترین اور مہلک مرض ہے، جو سماج کی رگوں میں زہریلے خون کی مانند سرایت کر کے پورے نظام انسانیت کو کھوکھلا اور تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ یہ ظالم کو پناہ دیتا اور مظلوم کو جبراً ظلم برداشت کرنے پر مجبور کرتا ہے، رشوت ہی کے ذریعے گواہ، وکیل اور حاکم سب حق کو ناحق اور ناحق کو حق ثابت کرتے ہیں۔

یہودیوں میں اہل کتاب اور انبیاء علیہم السلام کی اولاد ہونے کے باوجود رشوت عام ہو چکی تھی، ان کے معاملات بگڑ چکے تھے، عفت و پاک دامنی کی بجائے ہر سو حرص، ہوس اور لالچ کا دور دورہ تھا۔ یہود اور سرداران یہود رشوت کے رسیا تھے۔ بنی اسرائیل کے حکام کا یہ حال تھا کہ فریقین میں جب کوئی ان کے پاس آتا تو رشوت کو اپنی آستین میں رکھ لیتا اور پھر حاکم کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتا تھا۔ پھر اپنی ضرورت کا اظہار کرتا، حاکم فریفتہ ہو کر اس کی طرف مائل ہوتا، اس کی باتیں سنتا اور اس کے دوسرے فریق کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ اس طرح یہ حکام رشوت کھاتے اور جھوٹی باتیں سنتے۔ (تفسیر کشاف) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اے پیغمبرﷺ یہ لوگ جھوٹی باتیں بنانے کے لیے جاسوسی کرنے والے اور (رشوت کا) حرام مال بہت زیادہ کھانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ المائدہ)

ارشادِ ربانی ہے:’’اور تم دیکھو گے کہ ان میں اکثر گناہ، زیادتی اور حرام مال کے کھانے کی طرف جھپٹتے ہیں، بہت برے کام ہیں، جو یہ کر رہے ہیں، بھلا ان کے علما انہیں گناہ کی بات کہنے اور حرام مال کھانے سے کیوں نہیں روکتے، یقیناً یہ لوگ بہت ہی برا کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ المائدہ) گویا رشوت خور رشوت لے کر اتنا حریص ہو جاتا ہے کہ اس کی رشوت کی بھوک نہیں مٹتی، جیسے بہت زیادہ لالچی اور حریص آدمی کی بھوک نہیں مٹا کرتی۔ اسلام کسبِ حلال کی تعلیم دیتا اور حرام مال خواہ کسی بھی ذریعے سے کمایا جائے ، اسے ناجائز اور جہنم کا ایندھن قرار دیتا ہے، جس سے اجتناب ایمان اور بندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔

 مفتی محمد نعیم

Post a Comment

0 Comments