بابری مسجد کی شہادت میں ملوث اس وقت کے ہندو انتہا پسند بلبیر سنگھ اور آج کے مسلمان محمد عامر نے جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد شہید کرنے چھت پر چڑھا تو بے چینی اور کپکپاہٹ شروع ہوگئی تھی، انڈیا میں 91 مساجد تعمیر کر چکا ہوں، اسلام قبول کرنے میں مجھے کم و بیش چھ مہینے لگ گئے تھے، میرے والدین اور دونوں بھائی بھی مسلمان ہو گئے ہیں، میری اہلیہ نے میرے قبول اسلام کے چار مہینے بعد اسلام قبول کیا، بابری مسجد شہید کرنے والے 28 لوگوں نے مولانا کلیم صدیقی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا باقی بزرگانِ دین کے ذریعہ بھی بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا، بابری مسجد شہید کرنے والی تنظیموں کے سرداروں کی بیٹیاں اور خاندان والے سب سے زیادہ اسلام قبول کر رہے ہیں.
پاکستان جانے کی خواہش ہے وہاں سے لوگ آتے ہیں تو ان سے مل کر مسرت ہوتی ہے، بنگلہ دیش میں 2014ء میں مجھ سے ایک مسجد کی بنیاد رکھوائی گئی جس کا نام بابری مسجد رکھا گیا، پاکستان بھی مسجد کی بنیاد رکھنے کیلئے بلوائے اور اس کا نام بھی بابری مسجد رکھے یا جو نام رکھنا چاہیں۔ میزبان سلیم صافی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد عامر نے بتایا کہ میں بابری مسجد کو شہید کرنے والے لوگوں میں شامل تھا، میں نے یکم جون 1993ء کو اسلام قبول کیا، اللہ تعالیٰ کس کو کب ہدایت دیدے یہ اس کا معاملہ ہے، بابر ی مسجد شہید کرنے کے بعد واپس آیا تو ذہن پر کافی بوجھ تھا، ہر آہٹ پر ایسا لگتا تھا کہ مسلمان مجھے مارنے آگئے، بے چینی اس قدر بڑھی کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہورہا تھا.
اپنی بے چینی کے علاج کیلئے مولانا کے پاس گیا کہ شاید یہ کوئی تعویذ دیدیں اور چونکہ یہ مسلمانوں کے بڑے ہیں ان سے معافی مانگ لوں گا تو شاید مسلمان مجھے معاف کر دیں، مولانا کے پاس گیا تو میرا نظریہ اسلام قبول کرنے کا نہیں تھا، بابری مسجد کو شہید کرنے اس کی چھت پر چڑھا تو مجھے بے چینی اور کپکپاہٹ شروع ہو گئی تھی، اس وقت ایسا لگا کہ بہت زیادہ لوگوں کے سامنے ہوں اس لئے بے چینی ہے لیکن وقت کے ساتھ گھبراہٹ مسلسل بڑھتی چلی گئی۔ محمد عامر نے بتایا کہ اسلام قبول کرنے میں مجھے کم و بیش چھ مہینے لگ گئے تھے، میرے اسلام قبول کرنے کے بعد میرے والدین اور دونوں بھائی بھی مسلمان ہوگئے ، میری اہلیہ نے میرے اسلام قبول کرنے کے چار مہینے بعد اسلام قبول کیا.
میں نے اسلام قبول کیا تو میرے گھر والوں کا کوئی ردعمل نہیں تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد بیوی کو لینے گیا تو سسرال والوں نے مجھے گھر کے اندر نہیں بلایا بلکہ بیٹھک میں بٹھایا، نہانے کیلئے گرم پانی دیا اور جو کپڑے میں نے اتارے اس کی جگہ دوسرے کپڑے پہننے کیلئے دیئے، انہوں نے میرے کپڑوں کو ہاتھ تک لگانا گوارا نہیں کیا اس سے ان کی نفرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہمارے علاقوں میں مسلمان کہیں نظر نہیں آتے تھے، ہریانہ اور پنجاب کے علاقوں میں دینی مدارس اور مساجد کے زیادہ تر آئمہ حضرات یوپی، بہار اور بنگال کے تھے جو بابری مسجد کی شہادت کے بعد واپس اپنے گھروں کو چلے گئے، کچھ لوگ جو داڑھی رکھتے اور ٹوپی پہنتے تھے انہوں نے بھی داڑھی چھوٹی کروالی اور ٹوپی جیب میں رکھ لی تھی یہاں تک کہ لوگ نمازوں میں نہیں آتے تھے۔
محمد عامر نے کہا کہ میں اسلام قبول کرتے ہی یوپی میں مولانا کلیم صدیقی کے گاؤں چلا گیا تھا، پونے تین ماہ بعد ایک شخص نے مجھے کہا کہ اب اپنے گھر والوں کو بھی اسلام کی دعوت دینی چاہئے لیکن میری ہمت نہیں ہو رہی تھی، بڑے بزرگ نے بھروسہ دیا تو گھر والوں کو جا کر مسلمان ہونے کے بتایا تو ان کا ردعمل تھا کہ یہ مسلمانوں میں رہا ہو گا اس لئے ان کے جیسا بن کے آگیا ہے۔ محمد عامر نے بتایا کہ بابری مسجد شہید کرنے والے 28 لوگوں نے صرف مولانا کلیم صدیقی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا باقی بزرگانِ دین اور اداروں کے ذریعہ بھی بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا، بابری مسجد شہید کرنے والی تنظیموں کے سرداروں کی بیٹیاں اور خاندان والے سب سے زیادہ اسلام قبول کر رہے ہیں.
مجھ سے پہلے اسلام قبول کرنے والے میرے ساتھیوں نے مجھے ڈھونڈا، وہ مجھے ایک مجلس میں لے کر گئے جہاں مولانا کلیم صدیقی سے میری ملاقات ہوئی، مجھے اس وقت ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میں پہچان نہ لیا جاؤں، مولانا کلیم صدیقی سے کہا آپ میری جان بخشنے کا فتویٰ دیدیں تو مجھے اطمینان ہو جائے گا، انہوں نے جواب دیا کہ مسجد اللہ کا گھر تھا، اللہ ہمارا اور آپ کا مالک ہے، آپ نے مسجد کو نقصان پہنچایا ہم اس معاملہ میں معاف کرنے والے کوئی نہیں ہے، آپ اس مالک سے معافی مانگئے وہ معاف کر دے تو آپ معاف ہو جائیں گے، انہوں نے مجھے سورئہ اخلاص اور آیة الکرسی کی تفسیر مجھے سنائی، مولانا کلیم صدیقی نے تفصیل سے مجھے سمجھایا تو میں نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔ محمد عامر کا کہنا تھا کہ اللہ، گاڈ، رب، وشنو، ہری کہئے سب اللہ کے ہی نام ہیں، ابھی ایک بڑے پنڈت نے اللہ کے ننانے ناموں کا سنسکرت میں جو ترجمہ کیا ہے وہ بالکل ویداج میں بھی آئے ہیں۔
محمد عامر نے کہا کہ مولانا سمیت دیگر لوگوں نے ایک ہی بات کی کہ ہم مسجد میں امام، نماز، متولی، موذن ہو سکتے ہیں لیکن اس کا مالکانہ حق کسی کے پاس نہیں صرف اللہ کے پاس ہے، حضرت نے بہت خاص بات کی کہ بابر ی مسجد شہید کرنے والوں نے انجانے میں یہ گناہ کیا ہے، ہمارا کام دین کی تبلیغ کرنا تھا، یہ ہمارا گناہ ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ ناسمجھ بنے، اگر ہم لوگوں کو اللہ کا تعارف کرواتے تو یہ کبھی ایسا نہ کرتے۔ محمد عامر نے کہا کہ میں جمہوری ملک میں ہوں مجھے انڈیا میں پیدا ہونے پر فخر ہے، ہم یہاں اپنے وزیراعظم کو بھی گالیاں دے سکتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کے طریقے پر چلنے کے علاوہ کہیں فلاح و کامیابی نہیں ہے، مجھے پاکستانیوں سے دلی محبت ہے آپ ہمارے علاقے کے خاندانوں کے لوگ تھے، پاکستان جانے کی خواہش ہے وہاں سے لوگ آتے ہیں تو ان سے مل کر مسرت ہوتی ہے، بنگلہ دیش میں 2014ء میں مجھ سے ایک مسجد کی بنیاد رکھوائی گئی جس کا نام بابری مسجد رکھا گیا، پاکستان بھی مسجد کی بنیاد رکھنے کیلئے بلوائے اور اس کا نام بھی بابری مسجد رکھے یا جو نام رکھنا چاہیں۔
سلیم صافی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ آپ اگلے سال تبلیغی اجتماع پر تشریف لایئے میں آپ کے ویزے اور دیگر سہولیات کیلئے ذاتی طورپر کوشش کروں گا۔ محمد عامر نے کہا کہ انڈیا میں 91 مساجد تعمیر کر چکا ہوں ان میں کسی مسجد کا نام بابری مسجد نہیں رکھا، زیادہ تر مساجد ان علاقوں میں بنائیں جہاں مسجدیں موجود نہیں تھیں، ہندوستان کے مسلمان اپنے اعمال و کردار سدھار کر مکمل اسلام میں داخل ہو جائیں، اسلام سے متعلق غلط فہمیاں دور کیں تو مسلمان یہاں آباد ہوں گے ورنہ برباد ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں ہے، پاکستان بگاڑ میں سدھار پیدا کرے اور ہماری کردار کشی کر کے جو کردار بنا دیا گیا ہے اسے ہمیں سدھارنا ہو گا، آپ اپنے میڈیا کو صحیح جج کیجئے میڈیا کے ذریعہ لوگوں کو پیغام دیں کہ میری ذمہ داری مجھ پر ہے، مسلک اپنے عمل کرنے کیلئے ہے دعوت دینے کیلئے صرف دین اسلام ہے، اسلام کی بات کیجئے مسلکوں میں مت الجھئے، امن میں رکاوٹ اور خلل ڈالنے والے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے یا راہِ ہدایت پر آجائیں گے۔
0 Comments