بخارا : امام البخاریؒ اور بو علی سینا کا شہر

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

بخارا : امام البخاریؒ اور بو علی سینا کا شہر

جب پہلی دفعہ ہم سمر قند سے بخارا کے لیے عازم ِسفر ہوئے تو سہ پہر کا وقت تھا۔ سفر بذریعہ سڑک تھا۔ جب بخارا میں داخل ہوئے تو رات کی تاریکی نے شہر کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ قیام کے لیے ہوٹل کی تلاش شروع کر دی۔ ہمیں غیر مقامی دیکھ کر ہوٹل کے میزبانوں نے یومیہ کرایہ کی غیر ملکیوں والی لسٹ نکال لی اور ہمیں 80 سے 120 ڈالر کا ریٹ بتایا۔ ایک تو ہم سفر کی تھکان سے نڈھال تھے دوسرے اتنے اونچے ریٹ نے ہمارے رہے سہے ہوش بھی اُڑا دیئے۔ کچھ مقامی لوگ بھی ہمارے محوِ سفر تھے ہم نے اُن کو آگے کر دیا اور کہا کہ ہم تاشقند میں کافی عرصہ سے قیام پذیر ہیں اور تاشقند ائیر پورٹ پر ہی اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ہم سے بیگانوں والا سلوک روانہ رکھا جائے۔ 

پھر ایک ہوٹل نے بڑی تگ و دو کے بعد ہمیں مقامی کرنسی سوم (SYM ) میں یومیہ کرایہ طے کرنے کے بعد ہوٹل کے اندر داخلے کی اجازت دی اور ہم نے خدا کا شکرادا کیا۔ رات کی تاریکی میں ہمیں بخارا میں تاشقند شہر کی سی چکا چوند نظر تو نہ آئی لیکن دن کے وقت شہر کے گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومنے کا اتفاق ہوا توپتہ چلا کہ یہ شہر تاریخ کے بے پناہ خزینوں سے مالا مال ہے۔ سمر قند سے بخارا کا فاصلہ 263 کلو میٹرہے۔ بخارا ازبکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ آبادی پونے تین لاکھ ہے۔ اس کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے تاشقند کے علاوہ اشک آباد، ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ کو بھی فلائیٹس جاتی ہیں۔

سطح سمندر سے اس شہر کی بلندی 750 فٹ ہے۔ وسطی ایشیا کے چند شہروں کا وجود تاریخ کا اٹوٹ انگ معلوم ہوتا ہے۔ ایسے لگتا ہے اگر یہ شہر روئے زمین پر موجود نہ ہوتے توشاید دُنیا کی تاریخ نامکمل رہ جاتی۔ ان شہروں میں تاشقند، سمر قند، بخارا اور خیوا نہایت اہم شہر ہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں سارے براعظموں میں براعظم ایشیا اہم حیثیت رکھتا تھا۔ براعظم ایشیا میں وسطی ایشیا اور وسطی ایشیا میں یہ شہر جن کا سطورِ بالا میں ذکر کیا گیا ہے۔ انھی شہروں میں سے ایک شہر بخارا ہے۔ بخارا کی اہمیت کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ شہر ماضی میں دُنیا کے مشہور حکمرانوں اور حملہ آوروں کی یلغار کا نشانہ بنتا رہا۔

اسی شہر میں سے دُنیائے اسلام کے نامور مبلّغ، محدّث، سکالر اور عالم فاضل نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا۔ امام اسماعیل البخاریؒ اور بو علی سینا کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ ماضی میں جس دور میں شاہراہِ ریشم پر یورپ سے چین تک تجارتی قافلے رواں دواں رہتے تھے، بخارا کا شہر دُنیا کے تاجروں کے لیے ایک جنکشن کی حیثیت رکھتا تھا اور بخارا کو مدینتہ التجاّر کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بخارا علم و تہذیب کا ایک بہت بڑا مرکز تھا۔ مدارس اور سیکڑوں مساجد سے پانچوں اوقات اذانیں گونجتی رہتی تھیں۔ بخارا کے قالین اور غالیچے آج بھی تمام دُنیا میں مشہور ہیں۔ 

عالمی ادارے یونیسکو (UNESCO ) نے اس شہر کو 1993 ء میں عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا اور 1993 ء میں ہی بخارا کو لاہور شہر کا جڑواں قرار دیا گیا۔ بخارا میں سیکڑوں عمارات نہایت خوبصورت ہیں۔ جن میں کلیان مینار جو 150 فٹ بلند ہے زمین سے اس کی گولائی کا قطر 29.5 فٹ اور اوپر تک جاتے جاتے اس مینار کا قطر 19.5 فٹ رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کلیان مسجد الغ بیگ کے دور میں 1514 ء میں تعمیر ہوئی۔ یہ مسجد سمر قند کی مسجد بی بی خانم کے سائز کی ہے۔ میر عرب مدرسہ شیبانی حکمرانوں کے دور میں اُن کے معتمد ِخاص شیخ عبداﷲ یمنی کی نگرانی میں تعمیر ہوا۔ 709 ء میں عربوں نے اس شہر پر غلبہ حاصل کیا۔ مدرسہ ککلداش آج سے چار پانچ صدی قبل تعمیر ہوا۔ جس میں اُس وقت اردگرد کے علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں طلبا زیر تعلیم رہتے تھے۔ اس مدرسے کی عمارت کی بناوٹ، خوبصورتی اور فن ِتعمیر ہنر مندوں کی اعلیٰ مہارت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

بخارا شہر میں تعمیر کیے گئے چار مینار شہر کی خوبصورتی میں گرانقدر اضافہ کا باعث ہیں۔ یہ مینار ایک بہت بڑے باغ میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ چار مینار بالکل ہمارے لاہور کی چوبرجی کی طرز کے بنائے ہوئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ چوبرجی کے مینارحوادث زمانہ سے گرِ چکے ہیں، جن کی دوبارہ تعمیر کی سعادت کسی بھی حکومت کے حصہ میں ابھی تک نہیں آئی۔ لیکن اس کے مقابلہ میں بخارا کے چار مینار اپنے اردگرد کے ماحول اور شہر کی تزئین و آرائش میں بے پناہ اضافے کا سبب ہیں۔ بخارا کو باغوں کا شہر (Garden City ) بھی کہا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مدفون کئی بزرگوں کا تعلق بخارا ہی سے تھا۔ جن کی اولاد ہمارے پاکستان کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے۔ جو اپنے آپ کو بخارا شہر کی نسبت سے بخاری کہلواتے ہیں۔

فقیراللہ خاں


 

Post a Comment

0 Comments