فرمان خداوندی ہے’’اور کہا تیرے رب نے ، مجھے پکارو اور میں تمھاری دعا قبول کروں گا‘‘۔ انسان کے دل میں خواہشات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ کوئی آرزو شکستِ آرزو تک کا سفر طے کرتی ہے تو کوئی اپنی ذات کے روبرو لے آتی ہے، کوئی جگر کو لہو کرتی ہے اور کوئی دعا بن کر لبوں پر آجاتی ہے۔ یہ آرزو خالص اور شدید ہو تو دعا مانگتے وقت آنکھیں پُرنم ہو جاتی ہیں، اور اصل دعا اصل پکار یہی تو ہے کہ وجود کا ایک ایک ریشہ دست سوال بن کر اپنے داتا کے سامنے پیش کرے۔ اللہ کے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے ’’جس کے لئے دعا کا دروازہ کھولا گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھولے گئے‘‘۔
دراصل دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں اللہ کے مختارِ کل ہونے پر یقین ہے۔ اس کی عطا و بخشش پر بھروسہ ہے اور اس کی رحمت سے امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ البتہ اس یقین کے اظہار کا بھی ایک سلیقہ ضروری ہے، دعا کا قرینہ بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے نبیﷺ کا فرمان ہے ’’تم میں سے کوئی شخص اس طرح نہ کہے کہ یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کر دے، میری مغفرت کر دے۔ بلکہ یقین کے ساتھ دعا کرے کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ سلیقے سے دعا مانگنے کے بعد اگلا مرحلہ قبولیت کے انتظار کا ہے۔ یہ بہت صبر آزما مرحلہ ہے جس میں بہت کم لوگ سرخرو ہوتے ہیں۔
حضور اکرمﷺ کا فرمان ہے ’’جو شخص اللہ سے سوال کرتا ہے تو اللہ اس کا سوال پورا کرتا ہے یا اس سے کسی ایسی برائی اور آفت کو روک دیتا ہے جو اس کے برابر ہو یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیتا ہے‘‘۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو مایوسی کی بات نہیں کرنی چاہیے، ناامیدی گویا اپنے اللہ کی قدرت پر شک کرنے اور اس کی رحمت پر بھروسہ نہ ہونے کے مترادف ہے۔ دعا مانگتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم جس سے مانگ رہے ہیں وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے، سب کی مانگی ہوئی دعائیں قبول کرتا ہے، تو وہ یقینا ہماری دعاؤں کو بھی قبول کرے گا۔ ’’اے شان کریمی مجھے مایوس نہ کرنا، تقدیریں بدلتی ہیں دعاؤں کے اثر سے‘‘۔
زندگی خوشیوں اور غموں سے عبارت ہے۔ خوبصورت دنوں میں ہر چہرہ، ہر موسم اور ہر لمحہ حسین اور دلکش دکھائی دیتا ہے، پھر اچانک غموں کی سیاہی سے حالات بدلتے ہیں اور خوشیوں کا رنگ پھیکا پڑنے لگتا ہے۔ تکلیف و مسائل یکے بعد دیگرے دل و دماغ کے وسیع آنگن میں ڈیرے جمانے لگتے ہیں۔ ایسے میں انسان بالکل اکیلا ہو جاتا ہے اپنی خالی جھولی کو اس رب کے آگے پھیلاتا ہے اور پھر رب جھولی کو خوشیوں سے بھر دیتا ہے۔ یاد رہے کہ ایسے وقت میں صرف اللہ کی ذات حوصلہ اورہمّت دیتی ہے۔ یہ حقیقت بہت تلخ ہے کہ آج کے دور میں مشکل وقت میں بہت کم لوگ ہی ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہیں۔
مجبوری اور مصیبت کے عالم میں صرف اللہ تعالیٰ انسان کی تکلیف دور فرماتا ہے اور جب انسان انتہائی مشکل اور سنگین حالات میں اللہ کی بارگاہ میں جھکتا ہے تو اللہ کو اپنے بندے پر بہت پیار آتا ہے اور وہ فوراً اس کو نوازتا ہے، جو وہ چاہتا ہے۔ اس تیز رفتار دور میں بہت مشکل سے کوئی کسی کو خوشی کے لمحات دیتا ہے لیکن اگر ایک دوسرے کو دل سے دعا دینا سیکھ جائیں تو شاید ہماری مانگی ہوئی دعائیں بھی قبول ہو جائیں، کیونکہ دعا سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ دل سے دی جانے والی دعا ہی تو ہے جو تقدیر بدل دیتی ہے۔ دعا دیجیے، دعا لیجئے، کیونکہ اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی قیمتی تحفہ نہیں ہے جو ہم کسی کو دے سکتے ہیں۔ بے شک اللہ کی ذات نیتوں سے واقف ہے۔
0 Comments