باوا آدم کے زمانے سے انبیاء کرام اس طرح روزے رکھا کرتے تھے

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

باوا آدم کے زمانے سے انبیاء کرام اس طرح روزے رکھا کرتے تھے

تاریخی اور مذہبی حوالوں کے مطابق آدم علیہ السلام کی کرہ ارض پر موجودگی کے ساتھ ہی روزے کا وجود بھی ملتا ہے۔ حضرت آدم ہر ماہ کے تین دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ بعض مفسرین نے اسے جنت سے باہر بھیجے جانے کے بعد "صیامِ توبہ" قرار دیا ہے۔ اس طرح ہمارے باوا آدم ایک سال میں 36 دن کے روزے رکھتے تھے۔ تاریخی ذرائع کے مطابق آدم علیہ السلام کے روزوں کا وقت مہینے کے وہ تین دن ہوتے تھے جب چاند اپنی پوری صورت کو مکمل کرتا ہے۔ یہ تین دن مسلمانوں میں چاند کی روشنی اور سفیدی کے سبب "ایّامِ بیض" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہجری تقویم کے مطابق یہ ہر ماہ کی تیرہ سے پندرہ تاریخ تک ہوتے ہیں۔

حضرت نوح علیہ السلام نے بھی حضرت آدم علیہ السلام کے طریقے پر ہر ماہ اُن ہی تین دن کے روزے رکھے جن میں چاند اپنی صورت مکمل کرتا ہے۔ ان روزوں کو عظیم طوفان سے نجات پر "صِیامِ شکر" کا نام دیا گیا۔ البتہ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزوں کا طریقہ مختلف ہوتا تھا۔ رسول صلى الله عليه وسلم کے فرمان کے مطابق وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کیا کرتے۔ گویا کہ وہ سال میں تقریبا 182 دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ تاریخی ذرائع کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام ہر ماہ نو دن روزے رکھا کرتے تھے۔ وہ مہینے کے آغاز پر تین دن، مہینے کے درمیان میں تین دن اور مہینے کے آخر میں تین دن روزہ رکھتے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ہمارے باوا آدم کے طریقے پر ہر ماہ تین دن روزے رکھا کرتے تھے۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے۔ تاہم بعض مفسرین نے اس کو تین دن کے روزے بیان کیا ہے اور نیکی دس گنا کے برابر ہوتی ہے۔ گویا کہ انہوں نے پورے مہینے روزے رکھے۔ کلیم اللہ حضرت موسی علیہ السلام کے روزوں کا طریقہ کار ذرا مختلف ہوتا تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ "وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ"۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو افطار کے بغیر مسلسل تیس روزے رکھنے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ اللہ سے ملاقات کریں اور ہم کلامی کا شرف حاصل کریں۔ تاہم موسی علیہ السلام نے روزے پورے کرنے کے بعد اس بات کو پسند نہ کیا کہ وہ اپنے منہ کی بُو کے ساتھ اپنے رب سے ملاقات کریں۔ انہوں نے ایک پیڑ سے شاخ لے کر اس سے مسواک کی۔ اس پر اللہ تعالی نے انہیں سابقہ حکم کی خلاف ورزی پر مزید دس روزے رکھنے کا حکم دیا۔

قرآن کریم میں مریم علیہا السلام کا "صیام" بھی مذکور ہے تاہم وہ لوگوں کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کا روزہ تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ "فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا ".

اسلام میں روزہ
سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے نزول سے قبل ہر سال ایک ماہ روزے رکھا کرتے تھے۔ نبوّت کے بعد انہوں نے ہر ہفتے پیر اور جعمرات کا روزہ رکھنا شروع کر دیا۔ آپﷺ اپنے صحابہ کرام کو بھی ان دو دنوں کے روزوں کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام نے ہمارے باوا آدم کے طریقے پر ہر ماہ تین دن یعنی ایام بیض کے روزے بھی رکھے۔ ان تین دنوں کے روزوں کے حوالے سے کئی روایات موجود ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کبھی کبھی مسلسل کئی روز تک روزے رکھا کرتے تھے کہ صحابہ کو گمان ہوتا کہ اب اللہ کے نبی افطار کریں گے ہی نہیں۔ اس کے بعد وہ دیکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افطار بھی کر لیا ہے۔ اس کے بعد اتنا طویل وقفہ آتا کہ صحابہ کرام کو گمان ہوتا کہ شاید اللہ کے نبی دوبارہ روزہ نہیں رکھیں گے۔ رمضان المبارک کے روزے ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئے۔ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل 9 سال رمضان المبارک کے روزے رکھے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ ـ محمد الحربی


 

Post a Comment

0 Comments