بودھ اکثریتی ملک میانمار میں مذہبی آزادی کو پریشان کن حد تک مسائل کا سامنا ہے، جب کہ روہنگیا مسلمانوں کو ’نسل کشی‘ تک کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ایسے میں میانمار کے مسلمان رمضان کیسے منائیں گے؟ میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون میں مقیم مسلمانوں کے رہنما ٹِن شوے رمضان کے موقع پر کئی طرح کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ رواں سال اب تک جتنے پناہ گزين يورپ پہنچے ہيں، ان کی پچاسی فيصد تعداد اٹلی ميں موجود ہے۔ ان میں سے اکثريت کا تعلق مسلم ممالک سے ہے اور ہزاروں کے ليے ايک انجان ملک اور معاشرے ميں يہ ان کا پہلا رمضان ہے۔ رمضان ميں مذہبی ذمہ داريوں کو پورا کرنے کے سلسلے ميں مہاجرين کو سماجی مسائل کا سامنا ہے کيونکہ يہ سب ان کے ليے بالکل نيا ہے۔ تاہم سسلی ميں کتانيا کی مسجد الرحمان بہت سوں کے ليے سکون کی آغوش ہے۔
مقامی مدرسے کے 56 سالہ سربراہ کا کہنا ہے کہ ان کے مدرسے کو مقامی حکام نے ایک برس قبل بند کر دیا تھا۔ مدرسے کی بندش قریب ایک سو مشتعل بودھ قوم پرستوں کے مظاہرے کے بعد ہوئی۔ ان مشتعل مظاہرین کے مطابق یہ عمارت تعلیم گاہ کی بجائے بہ طور مسجد استعمال کی جا رہی تھی۔ ٹِن شوے کے مطابق مسلمانوں کے پاس کہیں اور جانے کی جگہ نہیں تھی، اس لیے وہ مدرسے کے باہر گلی میں نماز ادا کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹن شوے کے بیٹے اور چھ دیگر افراد کو ملکی قانون کے تحت تین ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
میانمار کے وارڈ اینڈ ویلیج ٹریکٹ ایڈمنسٹریشن قانون کے مطابق اجازت لیے بغیر ایسا کوئی بھی اجتماع غیرقانونی اور قابل دست اندازی پولیس ہے۔ نوبل انعام یافتہ رہنما آن سانگ سوچی کی حکومت کے قیام کے دو برس سے زائد عرصے کے باوجود میانمار کے مسلمانوں کی زندگیوں میں تبدیلی کی بجائے ڈرامائی بدحالی دیکھی گئی ہے۔ شوے کے مطابق اب انہیں نماز کی ادائیگی کے لیے قریبی مسجد تک پہنچنے کے لیے آدھ گھنٹہ پیدل چلنا پڑتا ہے اور روزے کی حالت میں ان کے بقول، ’’یہ نہایت مشکل ہے۔‘‘
میانمار میں مسلمانوں کو نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی کا بھی سامنا ہے اور اس پابندی کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ دھمکیاں، خوف، تفریق، شہریت نہ دینے اور مذہبی آزادی سلب کرنے جیسے اقدامات بھی میانمار کے مسلمانوں کی زندگیوں میں کئی طرح کی مشکلات کا باعث ہیں۔ اس صورت حال میں گزشتہ برس اگست میں راکھین ریاست میں روہنگیا کے خلاف شروع کیے گئے عسکری آپریشن سے مزید خرابی پیدا ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست کے آخر میں راکھین ریاست میں شروع ہونے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچے تھے، جو وہاں مختلف مہاجر بستیوں میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
0 Comments