اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسے ایک دو جج اور ہماری اعلیٰ عدلیہ میں ہوتے تو کم از کم میڈیا کافی سدھر چکا ہوتا اوربہت سے ٹی وی چینلز کی بیہودگی اُس نہج تک نہ پہنچ چکی ہوتی جس کا آج پوری قوم کو سامنا ہے۔ ویسے تو موجودہ جج حضرات میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز کے ذریعے معاشرہ اور معاشرتی و دینی اقدار کو تباہ کرنے کی موجودہ روش سے بہت تنگ ہیں لیکن جسٹس شوکت صدیقی کو اللہ تعالیٰ نے اُس جرأت سے نوازا ہے کہ وہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے بڑوں بڑوں سے ٹکرا جاتے ہیں اور جب بھی انہیں موقع ملتا ہے میڈیا کو بھی کھری کھری سناتے ہیں اور چینلز کو غیر اسلامی اور غیر آئینی مواد دکھانے اور روکنے میں زرا برار بھی نہیں کتراتے۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے جس کے ساتھ ہی مختلف ٹی وی چینلز نے سال کے گیارہ ماہ تک ناچنے گانے والوں بشمول اداکار، ادکارائیں اور گلوگار گلوکارائیں کو اس مقدس مہینے میں پروگرام کرانے کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ گویا عبادتوں کے اس بابرکت مہینے میں انٹرٹینمنٹ کا رنگ بدلا جا رہا ہے اور وہی اداکار و گلوکار جو پورا سال ناچ گانے میں مصروف رہتے ہیں اُنہیں شلوار قمیض، واسکٹ، دوپٹہ وغیرہ پہنا کر اسلامی رنگ دے کر ٹی وی چینل دیکھنے والوں کو اسلام کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کو اس انداز میں سالہا سال سے پیسہ کمانے کے لیے بیچا جا رہا جس سے بڑی تعداد میں لوگ ناراضگی کا بھی اظہار کرتے ہیں لیکن میڈیا کی طاقت کے سامنے نہ کوئی ادارہ بولتا ہے نہ ہی حکومت اور عدالت۔
گویا رمضان کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں گزشتہ سال کی طرح اعلیٰ عدلیہ کے صرف ایک جج محترم شوکت صدیقی نے ٹی وی چینلز کے ذریعے ان غیر اسلامی رجحانات کو روکنے کا بیڑا اٹھایا۔ گزشتہ سال جسٹس صدیقی نے تمام ٹی وی چینلز کو پیمرا کے ذریعے پابند ایک کوڈ آف کنڈکٹ کا پابند بنایا لیکن ایک اور عدالت نے اُن کے فیصلہ کے خلاف چینلز کو ریلیف دیا جس سے جو بہتری آنی چاہیے تھی وہ نہ آ سکی۔ گزشتہ روز ایک بار پھر جسٹس شوکت صدیقی نے رمضان کے دوران ٹی وی چینلز پر ہر قسم کے نیلام گھر پر پابندی عائد کر دی ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اس رمضان کے دوران کسی چینل پر نیلام گھر اور سرکس نہیں ہو گا جبکہ ہر چینل کیلئے پانچ وقت کی اذان نشر کرنا لازم ہو گا۔ جسٹس صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ جو بعض چینلز میں ہو رہا ہے اگر وہی کرنا ہے تو پاکستان کے نام سے اسلامی جمہوریہ ہٹا دیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسلام کا تمسخر اڑانے کی اجازت کسی کو نہیں دینگے۔ رمضان ٹرانسمیشن اور مارننگ شوز کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ رمضان ٹرانسمیشن میں سرکس لگتے رہے تو پابندی لگا دیںگے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کیلئے اذان سے بڑی بریکنگ نیوز کوئی نہیں لیکن کوئی چینل رمضان المبارک میں اذان نشر نہیں کرتا بلکہ اذان کے اوقات میں چینلز ناچ گانا اور اشتہارات چلاتے ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اسلامی تشخص اور عقائد کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس صدیقی نے اس کیس کو سنتے ہوئے غیر ملکی خصوصاً بھارتی اشتہارات، ڈراموں اور فلموں پر مکمل پابندی عائد کر نے کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینلز کے خلاف فحاشی و عریانیت پھیلانے پر کارروائی کی بھی ہدایت کی ہے۔ پیمرا کی طرف سے رمضان المبارک کے دوران نشریات سے متعلق ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس صدیقی نے حکم دیا کہ ان ہدایات پر من و عن عمل کیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ اس فیصلہ میں جسٹس صدیقی نے پانچ وقت کی اذان کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم قرار دیا کہ افطاری سے پانچ منٹ قبل کوئی اشتہار نہیں چلے گا بلکہ اس وقت صرف دعا کی جائے گی اور درود شریف پڑھا جائے گا۔
پیمرا کی ہدایات کے مطابق ٹی وی چینلز پابند ہوں گے کہ اداکاروں گلوکاروں کو روپ بدلا کر نیا اسلامی رول دینے کی بجائے دین سے متعلق صرف اُنہی لوگوں کو مدعو کیا جائے گا جو دین کی روح سے واقف ہوں گے اور مستند علم رکھتے ہوں گے۔ ان ہدایات میں یہ بھی کہا گیا کہ اشتہارات کی ترتیب دیتے وقت رمضان المبارک کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، پروگراموں و اشتہارات میں ملبوسات کا خاص خیال رکھا جائے گا، موضوعات کا چنائو مبارک مہینہ کی مناسبت سے کیا جائے گا، غیرشائستہ، نازیبا اور پرتشدد مناظر نشر کرنے سے گریزکیا جائے گا، پروگراموں کے دوران لاوارث بچوں کو بے اولاد افراد کے سپرد کرنے کی اجازت نہیں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔
میری قارئین کرام اور چینلز کے ناظرین سے گزارش ہے کہ رمضان المبارک کے دوران بلخصوص اور عام دنوں میں بلعموم اگر وہ ٹی وی چینلز میں کوئی غیر اسلامی، غیرشائستہ، فحش، غیر اخلاقی مواد دیکھتے ہیں تو اس پر خاموش رہنے کی بجائے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں، پیمرا اور عدلیہ سے رجوع کریں۔ اگر عوام غیر قانونی، غیر اسلامی اور غیر اخلاقی مواد کی نشریات کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے تو جان لیں کہ ایک اکیلا جج کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ کوئی دوسری عدالت اور کوئی دوسرا جج جسٹس صدیقی کے فیصلہ کو ذائل کر کے ٹی وی چینلز کو پھر وہی کھلی چھٹی نہیں دی جائے گی جو نہ صرف ہماری دینی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ آئین اور قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔
0 Comments