آداب زندگی : رنج و غم میں کیا کریں ؟

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

آداب زندگی : رنج و غم میں کیا کریں ؟

کسی تکلیف اور حادثے پر اظہار غم ایک فطری امر ہے البتہ اس بات کا پورا پورا خیال رکھیے کہ غم اور اندوہ کی انتہائی شدت میں بھی زبان سے کوئی ناحق بات نہ نکلے اور صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے ۔

نبی ؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم نبیؐ کی گود میں تھے اور جان کنی کا عالم تھا ۔ یہ رقت انگیز منظر دیکھ کر نبی ؐ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور فرمایا ’’اے ابراہیم ہم تیری جدائی سے مغموم ہیں مگر زبان سے وہی نکلے گا جو    پروردگار کی مرضی کے مطابق ہو گا ۔ ‘‘ ( مسلم)

غم کی شدت میں بھی کوئی ایسی حرکت نہ کیجیے جس سے نا شکری اور شکایت کی بو آئے اور جو شریعت کے خلاف ہو، دھاڑیں مارمار کر رونا، گریبان پھاڑنا اور گالوں پر طمانچے مارنا، چیخنا اورماتم میں سر سینہ پیٹنا، مومن کے لیے کسی طرح جائز نہیں ، نبی ؐ کا ارشاد ہے ’’ جو شخص گریبان پھاڑتا گالوں پر طمانچے مارتا اور جاہلیت کی طرح چیختا اور چلاتا، اور بین کرتا ہے وہ میری امت میں نہیں۔‘‘ (ترمذی)

حضرت جعفر طیار ؓ جب شہید ہوئے اور ان کی شہادت کی خبر ان کے گھر پہنچی تو ان کے گھر کی عورتیں چیخنے چلانے لگیں اور ماتم کرنے لگیں ۔ نبی ؐ نے کہلا بھیجا کہ ماتم نہ کیا جائے مگر وہ باز نہ آئیں تو آپ ؐ نے دوبارہ منع فرمایا پھر بھی وہ نہ مانیں تو آپ ؐ نے حکم دیا ۔ ان کے منہ میں خاک بھر دو ۔ (بخاری)

ایک بار آپ ؐ ایک جنازہ میں شریک تھے۔ ایک عورت انگیٹھی لیے ہوئی آئی آپ ؐ نے اس کو اتنی سختی سے ڈانٹا کہ وہ اسی وقت بھاگ گئی ۔ ( سیرت النبی جلد ششم)

اور آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ جنازے کے پیچھے کوئی آگ اور راگ نہ لے جائے ۔
عرب میں یہ رسم تھی کہ لوگ جنازے کے پیچھے چلتے تو اظہار غم میں چادر پھینک دیتے تھے ۔ صرف کرتہ پہنے رہتے تھے۔ ایک بار آپ ؐ نے لوگوں کو اس حال میں دیکھا تو فرمایا۔ جاہلیت کی رسم اختیار کر رہے ہو ۔ میرے جی میں آیا کہ تمہارے حق میں ایسی بد دعا کروں کہ تمہاری صورتیں ہی مسخ ہو جائیں لوگوں نے اسی وقت اپنی اپنی چادریں اوڑھ لیں اور پھر کبھی ایسا نہ کیا۔ ( ابن ماجہ )

بیماری کو برا بھلا نہ کہیے اور نہ کوئی حرفِ شکایت زبان پر مت لائیے بلکہ نہایت صبر و ضبط سے کام لیجیے اور اجر آخرت کی تمنا کیجیے. بیماری جھیلنے اور اذیتیں برداشت کرنے سے مومن کے گناہ دھلتے ہیں اور اس کا تزکیہ ہوتا ہے اور آخرت میں اجر عظیم ملتا ہے ۔ نبی ؐ کا ارشاد ہے، ’’ مومن کو جسمانی اذیت یا بیماری یا کسی اور وجہ سے جو بھی دکھ پہنچتا ہے ۔ خدا تعالیٰ اس کے سبب اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے ۔ جیسے درخت اپنے پتوں کو جھاڑ دیتا ہے ۔ ( بخاری ، مسلم )

ایک بار نبی ؐ نے ایک خاتون کو کانپتے دیکھ کر پوچھا ۔ اے ام سائب یا مسیب! کیا بات ہے تم کیوں کانپ رہی ہو؟ کہنے لگیں ، مجھے بخار نے گھیر رکھا ہے ، اس کو خدا سمجھے! نبی ؐ نے ہدایت فرمائی کہ ’’ نہیں بخار کو برا مت کہو ۔ اس لیے کہ بخار اس طرح اولادِ آدم کو گناہوں سے پاک کر دیتا ہے جس طرح آگ لوہے کے میل کو دور کر کے صاف کرتی ہے ۔ ( مسلم )

حضرت عطا ابن رباح ؒ اپنا ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار کعبہ کے پاس حضرت عباس ؓ مجھ سے بولے تمہیں ایک جنتی خاتون دکھائوں؟ میں نے کہا ، ضرور دکھائیے ۔ کہا ۔ دیکھو یہ جو کالی کلوٹی عورت ہے یہ ایک بار نبی ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بولی ۔ یا رسول اللہ ؐ مجھے مرگی کا ایسا دورہ پڑتا ہے کہ تن بدن کا ہوش نہیں رہتا ، یا رسول اللہ میرے لیے خدا سے دعا کیجیے ، نبیؐ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اس تکلیف کو صبر کے ساتھ برداشت کرتی رہو تو خدا تمہیں جنت سے نوازے گا اور اگر چاہو تو میں دعا کر دوں کہ خدا تمہیں اچھا کر دے ‘‘ ۔ یہ سن کر وہ خاتون بولی یا رسول اللہ میں اس تکلیف کو تو صبر کے ساتھ برداشت کرتی رہوں گی ۔ البتہ یہ دعا فرما دیجیے کہ اس حالت میں ستر نہ کھلے ، تو نبی ؐ نے اس کے لیے دعا فرمائی ۔ حضرت عطا کہتے ہیں کہ میں نے اس دراز قد خاتون ام رفز کو کعبہ کی سیڑھیوں پر دیکھا ۔‘‘

کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ غم نہ منائیے ۔ عزیزوں کی موت پر غمزدہ ہونا اور آنسو بہانا ایک فطری امر ہے لیکن اس کی مدت زیادہ سے زیادہ تین دن ہے ۔ نبی ؐ نے فرمایا کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے ۔ا لبتہ بیوہ کے سوگ کی مدت چار مہینے دس دن ہے۔ اس مدت میں نہ وہ کوئی رنگین کپڑا پہنے ، نہ خوشگو لگائے اور نہ کوئی اور بنائو سنگھار کرے ‘‘ ۔ (ترمذی)

حضرت زینب ؓ بنت حجش کے بھائی کا انتقال ہوا تو چوتھے روز تعزیت کے لیے کچھ خواتین پہنچیں ۔ انہوں نے سب کے سامنے خوشبو لگائی اور فرمایا مجھے اس وقت خوشبو لگانے کی کوئی حاجت نہیں تھی ۔ میں نے یہ خوشبو محض اس لیے لگائی کہ میں نبی ؐ سے سنا ہے کہ کسی مسلمان خاتون کو شوہر کے سوا کسی بھی عزیز کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ۔

مولانا یوسف اصلاحی


 

Post a Comment

0 Comments