یہ بات ٹھیک ہے کہ معاشرے میں بدگمانی بہت عام ہے لیکن کیا کریں، دھوکہ دہی کی کثرت نے ہی تو اِسے جنم دیا ہے۔ ’’خوش گمانی‘‘ میں ذرہ بھر مبالغہ اِسے خطرناک ’’خوش فہمی‘‘ میں بدل دیتا ہے جو جلد یا بدیر منہ کے بل گرا دیتی ہے۔ پھر حدیث پاک کے مطابق کیسے مومن کے بارے میں ستر گمان اچھے رکھے جائیں؟ کہیں مومن مل جائے تو پورے یقین کیساتھ اِس کے بارے میں ستر گمان اچھے رکھ لیجیے، کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن کیا اِس معاشرے میں اکثریت مومنین کی ہے؟ نہیں؟ تو پھر بدگمانی کے بارے میں بدگمان نہ ہوں بلکہ بدگمانی کو کسی حد تک احتیاط کا درجہ دے دیجئے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
صبر، شکر اور خوشی
سسکنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ماہی بے آب خشکی پر جتنا چاہے تڑپے، اُسے زندگی نہیں ملتی۔ وقت کی بانہیں تھام کر اُس کے ساتھ تو چلا جا سکتا ہے لیکن اُس کے گلے لگ کر رویا نہیں جا سکتا۔ لہذا مسکرانا سیکھیں اور زندگی کے ہر لمحے سے خوشی کشید کرکے پی جائیں۔ زائد ہو تو دوسروں کو بھی پلائیں، یہ صدقہ جاریہ ہے۔ یہ تبھی ہوگا اگر آپ صبر اور شکر کرتے ہیں۔ یاد رکھیں! اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے جبکہ شکر کرنے والے تھوڑے ہیں۔
حوصلہ
آفت کس پر نہیں پڑتی؟ مگر بچتا وہی ہے جو حوصلہ قائم رکھے ورنہ پریشانی میں کانپتے ہاتھ، لرزتا بدن اور ڈانواڈول فیصلے پریشانی کو دُگنا کر دیتے ہیں لیکن مومن کبھی حالات کے سامنے نہیں جھکتا۔ وہ اللہ کے سامنے جھکتا ہے اور حالات کے سامنے ڈٹ جاتا ہے البتہ اِس کے لیے حوصلہ چاہیئے جو انسان کی قیمتی ترین متاع ہے۔ اِس آزمائش بھری دنیا میں صرف زندہ رہنے کیلئے آسمان جتنا بلند حوصلہ چاہیئے اور اگر آپ زندہ رہنے سے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو خود سوچ لیں کہ آپ کو کتنا حوصلہ درکار ہے۔ اِس یقین کے ساتھ مضبوط ہوجائیے کہ اللہ کسی کی ہمت سے زیادہ اُس پر بوجھ نہیں ڈالتا اور ہر متلاشی کیلئے راستہ موجود ہے۔
تدبیر اور تقدیر تقدیر کا لکھا کبھی کبھار بیٹھے بٹھائے بھی مل جاتا ہے مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اِس دارالاسباب میں تقدیر پانے کے لئے تدبیر کرنا پڑتی ہے۔ تدبیر کیا ہے؟ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو انتھک محنت سے بروئے کار لانا۔ بغیر کدال چلائے زمین کی سختی پر شکایت کناں ہونا عمل سے فرار پانے کا مقبول ترین طریقہ ہے۔ آپ اپنی تقدیر کا انتظار نہ کیجئے بلکہ جان لیں کہ تقدیر آپ تک پہنچنے کیلئے آپ کی تدبیر کی منتظر ہے۔ لہذا تن آسانی چھوڑیئے، توہم پرستی کے بُت توڑیے اور تدبیر کیجئے۔ آپ کی تقدیر آپ کے پاس ہی کہیں موجود ہے۔
اعتماد اعتماد خود پر بھی ہوتا ہے اور دوسروں پر بھی۔ دوسروں پر ہو تو دھوکے یا غلط فہمی سے ٹوٹتا ہے اور خود پر ہو تو کاہلی اور سستی سے۔ آنکھیں کھلی رکھیں، مشورہ لے کر چلیں اور عجلت میں فیصلہ کرنے سے احتراز کریں، آپ دھوکے سے بچ جائیں گے۔ مثبت انداز سے سوچیں، دوسروں کو صفائی کا موقع دیں اور تعصب سے پاک ہو کر سنیں، غلط فہمی کے انڈے سے کبھی بچہ نہیں نکلے گا۔ بغیر محنت کئے اپنی صلاحیتوں پر شک نہ کریں، یہ آپ کی خود اعتمادی کو نگل جائے گا۔ یاد رکھیں محنت سے پہلے سے موجود صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور نئی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں جبکہ کاہلی سے پاس موجود ہر سرمایہ غارت ہو جاتا ہے۔
سچ اور جھوٹ سچ چھپانا اور جھوٹ بولنا ہمیشہ کسی خوف کے زیرِ اثر یا کسی مفاد کے تابع ہوتا ہے۔ غلطی کرنا اور جھوٹ بول کر نقصان سے بچ جانا دوبارہ غلطی کرنے کی ہمت دیتا ہے اور یوں انسان غلطیوں کا عادی ہو کر ایک غلط انسان بن جاتا ہے۔ یاد رکھیے کہ ہمیشہ سچ بولنے والا غلطی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ خود کو بچانے کیلئے وہ جھوٹ نہیں بولے گا اور یوں وہ اصلاح نفس جیسی عظیم دولت پالیتا ہے۔ خوف کے سائے میں جھوٹ بولنا اخلاقی جرات کی کمی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ محض مفاد کی خاطر جھوٹ بولنے والا بد فطرت ہوتا ہے۔ دونوں کا علاج صرف اور صرف سچ بولنے میں ہے لہذا ہر حال میں سچ بولیں۔
توقعات اور خوشیاں حد سے زیادہ توقعات خوشیوں کی دشمن ہوتی ہیں اور غیر ضروری توقعات رکھنے سے تعلقات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ توقعات پوری نہ ہوں تو انسان ٹوٹ جاتا ہے جبکہ حسبِ توقع مل جائے تو خوشی بھی کم ہوتی ہے، ہاں اگر توقعات کم ہوں تو خلاف توقع ملنے پر خوشی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ملتا تو مقدر سے ہے، توقعات رکھنے سے تھوڑی ملتا ہے؟ تو کیوں نہ کوشش جاری رکھی جائے، توقعات کم کرلی جائیں، اور اللہ کی نعمتوں پر دل کھول کر شکر ادا کیا جائے۔
ضمیر انسان کے اندر کلمہ حق بلند کرنا ضمیر کا کام ہے۔ اُسے سُلانا نسبتاً آسان ہے مگر مارنا بہت مشکل۔ نیند کے دوران بیمار بچے کی طرح یہ بار بار آنکھیں کھولتا اور کروٹیں بدلتا ہے لہذا اُسے تھپکیاں، جھولے اور نیند آور ادویات مسلسل دینی پڑتی ہیں۔ یہ مرتا ہے تو جہالت اور گمراہی کی گولی سے، مگر جب انسان حق کی پہچان ہی بھول جائے تو نہ رہے گی حق کی پہچان اور نہ رہے گی ضمیر کی آواز۔ یہ سویا ہو تو کبھی نہ کبھی زندگی کی گاڑی کو جھٹکا لگنے سے جاگنے کی امید باقی رہتی ہے لیکن اگر ضمیر مر جائے تو انسان جانوروں جیسا ہوجاتا ہے۔ ضمیر بکتا بھی ہے لیکن اِس کا سودا ہمیشہ خسارے کا ہوتا ہے کیونکہ ضمیر بیچ کر جو بھی جنس خریدی جائے، ضمیر سے بیش قیمت نہیں ہو سکتی۔
لہذا علم و آگہی پھیلائیے، ضمیر کو موت سے بچائیے، ضمیر فروشی پر لعنت بھیجیے، اور ہمیشہ حق بات کہیے۔
0 Comments