آج ہم طرح طرح کی پریشانیوں میں گرفتار ہیں۔ نجی پریشانی،گھریلوپریشانی، سماجی پریشانی، معاشی پریشانی، قدرتی پریشانی ۔ اس قسم کی سیکڑوں دیناوی پریشانیوں کے شکار ہیں جیسے لگتا ہے زندگی پریشانیوں کا مجموعہ ہے اورہم اللہ کی طرف سے خاص مہربانی اور نصرت وامداد سے محروم ہو گئے ہیں۔ دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں ، امداد طلب کرتے ہیں مگر امداد نہیں آتی ، آواز لگاتے ہیں مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں ملتا۔ آخر اس کے کیا وجوہات ہیں اور کن اسباب کی وجہ سے ہمارا یہ براحال ہے ؟
اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ساری پریشانیوں، مشکلوں، بیماریوں، مصیبتوں، دکھوں، غموں، دقتوں اور نقمتوں کا حل موجود ہے ۔ اسلام کے سایہ تلے زندگی گزارنے سے غربت دور ہو سکتی ہے ، بیماری کا علاج ہو سکتا ہے، پریشانی کا حل ہوسکتا ہے، غموں کا اختتام ہو سکتا ہے، دعائیں قبول ہو سکتی ہیں، مراد پوری ہو سکتی ہے، قسمت سنور سکتی ہے ، بگڑی بن سکتی ہے ۔ ہماری پریشانیوں بتلاتی ہیں کہ ہم نے اسلام کے سایہ تلے زندگی گزارنا چھوڑ دیا ہے ورنہ یہ دن نہ دیکھتے پڑتے ۔
ایک مومن کا اس بات پر ایمان ہونا چاہئے کہ ہمارا اصل مددگار صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے ،اس کے علاوہ کوئی مدد گار نہیں جیساکہ خود کلام رب اس کی گواہی دیتا ہے ۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (آل عمران:126)
ترجمہ: اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے ۔
اسی طرح دوسری جگہ فرمان الہی ہے :
بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ (آل عمران :150)
ترجمہ: بلکہ اللہ ہی تمہارا خیرخواہ ہے اور وہی سب سے بہتر مدرگارہے۔
جس کا مددگار اللہ ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی ، یہ ضمانت بھی اللہ تعالی نے خود دی ہے، فرمان پروردگار ہے :
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران :160)
ترجمہ: اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا ،اگر وہ تمہیں چھوڑدے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ،ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
یہاں ایک مومن کو یہ عقیدہ بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جو لوگ غیراللہ کو مدد کے لئے پکارتے ہیں ایسے لوگ شرک و کفر میں مبتلا ہیں۔ دراصل یہ بڑی وجہ ہے جس سے اللہ کی مدد آنی بند ہو گئی ۔ اور جنہیں اللہ کے علاوہ مدد کے لئے پکارا جاتا ہے وہ تو ہماری کچھ مدد نہیں کر سکتے بلکہ وہ اپنے آپ کی مدد کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ (الاعراف :197)
ترجمہ: اور تم جن لوگوں کو اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں۔
اب یہاں ان اسباب کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے یا یہ کہیں جن کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ۔
(1) اللہ پر صحیح ایمان
جو لوگ اللہ پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے وہ اس کی طرف سے مدد کے مستحق بن جاتے ہیں یعنی اللہ ایسے لوگوں کا مددگار بن جاتا ہے اور ایسے ایمان داروں کی مدد کرنا اللہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (الروم:47)
ترجمہ: اور ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ (الحج :38)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی سچے مومن کی (دشمنوں کے مقابلے میں) مدافعت کرتا ہے ، کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا اللہ تعالی کو ہرگز پسند نہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (غافر:51)
ترجمہ: یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیاوی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے ۔
آج ایمان کے دعویداروں کی بہتات ہے مگراکثرلوگ شرک کے دلدل میں پھنسے ہیں ، رب پر صحیح سے ایمان نہیں لاتے ، یا ایمان لا کر شرک و بدعت کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے نصرت الہی بند ہو گئی ۔
رب العزت کا فرمان ہے : وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ (یوسف:106)
ترجمہ: ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں۔
(2) عمل میں اخلاص
ہماری جدوجہد اور عمل میں اخلاص وللہیت ہو تو نصرت الہی کا حصول ہو گا ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّما يَنصرُ اللَّهُ هذِهِ الأمَّةَ بضَعيفِها، بدَعوتِهِم وصَلاتِهِم ، وإخلاصِهِم (صحيح النسائي:3178)
ترجمہ: بیشک اللہ اس امت کی مدد کرتا ہے کمزور لوگوں کی وجہ سے ، ان کی دعاوں ، ان کی عبادت اور ان کے اخلاص کی وجہ سے ۔
اس حدیث میں نصرت الہی کے تین اسباب بیان کئے گئے ہیں ۔ دعا، نماز، اخلاص ۔
ہمارے عملوں میں اخلاص کا فقدان ہے جو اللہ کی ناراضگی اور اس کی نصرت سے محرومی کا سبب بناہوا ہے ۔ اولا عملوں میں کوتاہی اس پر مستزاد اخلاص کی کمی یا فقدان ۔ شہرت، ریا ، دنیا طلبی نے ہمارے عملوں کو اکارت کر دیا اور ساتھ ساتھ نصرت الہی سے محروم بھی ہو گئے ۔
(3) دعا
دعا مومن کا ہتھیار ہے جو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے ، سفر میں ہو یا حضر میں حالت جنگ ہو یا حالت امن ، مصائب و مشکلات ہوں یا خوشحالی ، ہرموقع پر مومن دعا کے ذریعہ رب کی رضامندی اور مدد طلب کرتا ہے ۔ سیرت نبوی ﷺ سے اس کی ایک مثال دیکھیں ۔
بدر کا میدان ہے ، ایک طرف نہتھے 313 مسلمان ،دوسری طرف ہتھیاروں سے لیس ایک ہزار کا لشکر کفر۔ آپ ﷺ نے بڑی جماعت کے مقابلے میں اپنی چھوٹی جماعت کو دیکھا تو اللہ تعالی سے نصرت کی دعا کی ۔ مسلم شریف کے الفاظ ہیں :
اللهمَّ ! إن تهلِك هذه العصابةُ من أهلِ الإسلامِ لا تُعبدُ في الأرض(صحيح مسلم:1763)
ترجمہ: اے اللہ ! مسلمانوں کی یہ جماعت اگر ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ ہو گا۔
رب نے دعا قبول کرلی اور قرآن کی آیت نازل کرکے نصرت کی بشارت سنائی ۔
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ (الانفال:9)
ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر اللہ تعالی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے ۔
آج ہماری دعاؤں کی عدم قبولیت میں تین عوامل کا زیادہ دخل ہے ، اخلاص کا فقدان، بدعملی اور حرام معیشت ۔ ان تین منفی عوامل کو دور کردیا جائے تو دعائیں بلاشبہ قبول ہوں گی۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ غیراللہ سے امداد طلب کرتا ہے جو سراسر شرک ہے ، اس حال میں مرنا موجب جہنم ہے ۔ دعا عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لئے ہے ، آج مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقہ نے(جن کی اکثریت ہے) مشرکوں کی طرح غیراللہ کی پکار لگا کے دنیا سے امن وامان اور نصرت الہی کو روک رکھا ہے۔ ایسے گمراہ مسلمانوں کی اصلاح قلیل سچے مومن کے سر ہے ۔
(4) نماز
رب کی خالص عبادت مومن کی زندگی اور مقصد حیات ہے ،اس دعوت کو لے کرتمام انبیاء آئے، نبی ﷺ نے مکی دور میں جوتیرہ سال پر محیط پر اسی دعوت پہ کڑی محنت کی ۔ نماز مومن سے کسی بھی حال میں معاف نہیں ،میدان جنگ میں جہاں ایک لمحہ دوسری جانب التفات کا موقع نہیں نماز کے وقت میں نماز قائم کرنا ہے یعنی وقت نماز کو بھی مؤخر نہیں کر سکتے اور کیونکر معاف ہو یہ تو مقصد حیات ہے ۔ نبی ﷺ فرائض کے علاوہ سنن کی ادائیگی اس قدر کرتے کہ پاؤں میں ورم آ جاتا۔ آپ ﷺ ہر پریشان کن معاملہ میں نماز کا سہارا لیتے ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مصائب کے مواقع پر نماز کا حکم ہے، بارش کی نماز، سورج اور چاند گرہن کی نماز، اور زلزلہ کی نماز وغیرہ۔
لہذا ہم نماز کے ذریعہ رب سے استغاثہ کریں ۔ اللہ کا حکم ہے : وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (البقرة:45)
ترجمہ: اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو ،یہ چیز شاق ہے مگر ڈرنے والوں پر۔
(5) صبر
مصائب پر صبرکرنے سے بھی اللہ کی مدد آتی ہے ، جزع فزع کرنا نصرت الہی کے منافی ہے ۔ اس سلسلے میں صبر ایوب اعلی نمونہ ہے ۔ جو مومن صبر کے ساتھ رب ہی کو پکارتا ہے اور اسی سے امداد طلب کرتا ہے اسے اللہ تعالی ہر بلا سے نجات دیتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اللہ لگا رہتا ہے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرۃ:153)
ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو،اللہ تعالی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے ۔
(6) اللہ ہی پر توکل
انسان بے صبرا ہے ، تھوڑی سی مصیبت آتی ہے گھبرا جاتا ہے اور رب سے نجات مانگنے کی بجائے غیروں سے امداد طلب کرنے لگ جاتا ہے اور اسی پر توکل کر بیٹھتا ہے ۔ اگر کوئی مصیبت غیر اللہ کے در پر جانے سے ٹھیک ہو جائے تو اعتماد میں مزید پختگی آ جاتی ہے اور دوسروں کو بھی غیراللہ کے درپر جانے کی دعوت دیتا ہے ۔ یہاں ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ جو بھی جس دربار پہ بھی جائے اور جس سے بھی مانگے دینے والا صرف اللہ ہے ، آپ قبر پہ سوال کرکے یہ نہ سمجھیں ہمیں قبر والے نے دیا ہے ، دیتا تو اللہ ہی ہے چاہے آپ جائز طریقے سے مانگیں یا ناجائز طریقے سے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جائز طریقے سے مانگنے سے اللہ بخوشی دیتا ہے اور ناجائز طریقے سے مانگنے سے کبھی کبھی اللہ دے تو دیتا ہے بدلے میں اس کا ایمان چھین لیتا ہے ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جو لوگ پتھروں سے مانگتے ہیں ، مورتی بنا کراس سے مانگتے ہیں ان کی بھی عقیدت یہی ہوتی ہے کہ ہمیں مورتیوں نے دیا ہے ۔
مسلمان کو صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے ، یہ عبادت کے قبیل سے ہے اور توکل نصرت الہی کا سبب ہے ۔
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران :160)
ترجمہ: اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا ، اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ،ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ رب کا فرمان ہے : فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران:159)
ترجمہ: پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالی پر بھروسہ کریں ، بیشک اللہ تعالی توکل کرنے والوں سےمحبت کرتا ہے ۔
یہ چند مثبت عوامل تھے جن سے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی زندگی میں اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوتی ہے ۔ نیز منفی عوامل سے گریز کرنا پڑے گا جن کا احاطہ اس چھوٹے سے مضمون میں مشکل ہے ۔ بطور خلاصہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم شرک و بدعت، فسق وفجور، اعمال قبیحہ ، فتنہ وفساد، ظلم وفساد، کفرونفاق اور حرام خوری(رشوت، سود، غبن، چوری، حرام پیشہ) وغیرہ سے بچیں اور اسلام کے سایہ تلے زندگی بسر کریں یعنی دین کو پوری طرح قائم کریں ،اللہ کا وعدہ ہے وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (محمد:7)
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین ) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
اجتماعی زندگی میں فتح ونصرت کے لئے مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ مزید چند کام کرنے کی ضرروت ہے۔ ان میں سے ایک تمام مسلمانوں میں اتحاد (افتراق سے دوری)، دوسرا باہم مشاورت، تیسرامادی وسائل کی فراہمی (مجرب لشکر، جدید اسلحے، کارگردفاعی قوت) ،چوتھاعملی اقدام (جمود کا سدباب) اور پانچواں مسلک پرستی کا خاتمہ بالفاظ دیگر شریعت الہیہ کا نفاذ۔ سوچنے کا مقام ہے آج امریکہ پچاس ریاستوں کو ملا کر سپرپاور بنا ہوا ہے جبکہ ہمارے پاس 57 مسلم ممالک ہیں ہم کیوں نہیں سپرپاور؟ جبکہ مادی قوت کی بھی ہمارے پاس کمی نہیں۔
یاخیرالناصرین! قدم قدم پر تیری نصرت وتائیدکی ضرورت ہے تو ہمیں اپنی نصرت سے نواز دے، مسلم قوم ظالموں کے نرغے میں ہیں غیبی مدد کے ذریعہ توان کی حفاظت فرما اور دنیا میں دوبارہ ہمیں کافروں پرغلبہ دے ۔
آمین
مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف
مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف
0 Comments