نفاق وہ مرض ہے جسے کفر سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں منافقین کو جہنم کے نچلے ترین حصے میں پھینکے جانے کا تذکرہ ہے۔ مدینہ کے منافقین میں سے ایک منافق کا نام الجلاس بن سوید بن صامت بیان کیا گیا ہے۔ اس نے جس صحابیہ سے شادی کی ، وہ بیوہ تھی اور اس کا ایک بیٹا عمیر بن سعدؓ اس کے گھر میں پرورش پا رہا تھا۔ الجلاس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر آنحضورؐ کے بارے میں بہت ہی گستاخانہ گفتگو کی، اس نے کہا یہ شخص اگر اپنے دعووں میں سچا ہو تو خدا کی قسم پھر ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ چھوٹا سا بچہ اس بات کو کیا سمجھتا ہوگا مگر عمیر بن سعدؓ کے دل میں ایمان کی روشنی تھی اور وہ بچہ آنحضورؐ کا سچا محب تھا۔ اس نے کہا اے جلاس تو مجھے بہت محبوب تھا اور میں تیری بے پناہ عزت کرتا تھا مگر خدا کی قسم تم نے جو بات کہی ہے، اس نے میرا دل زخمی کر دیا ہے۔ اگر میں اسے چھپاؤں گا تو ہلاک ہو جاؤں گا اور اگر اسے بیان کردوں گا تو یہ بڑی شرم اور عار والی بات ہے مگر جو کچھ بھی ہو، میں تمھارا راز فاش کردوں گا۔ درِّ یتیمؐ کا یہ یتیم امتی واقعی نہایت قیمتی ہیرا تھا۔ جلاس نے اس بچے کو کہا کہ تم میری بات کو سمجھے ہی نہیں ہو مگر اس سعادت مند بچے نے جواب میں کہا کہ میں خوب سمجھتا ہوں، یہ کہہ کر عمیرؓ مجلس سے اٹھ گیا۔ الجلاس بھی فوراً اٹھا اور عمیرؓ سے پہلے آنحضورؐ کی مجلس میں پہنچ گیا۔
عمیرؓ بھی تھوڑی دیر بعد خدمت نبوی میں حاضر ہو گئے۔ مجلس میں ان کا سوتیلا باپ جلاس بھی موجود تھا۔ انھوں نے جب آنحضورؐ کی خدمت میں پورا واقعہ پیش کیا تو الجلاس نے حلف اٹھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ بزرگ صحابہ نے بھی عمیر سے کہا برخوردار تم بہت چھوٹے ہو تمھیں شاید بات کی سمجھ نہیں آئی۔ اس نے بڑے حزم کے ساتھ کہا خدا کی قسم جو کچھ ان کانوں نے سنا ہے وہی اس زبان نے بیان کیا ہے مگر بچہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اس کی بات کو زیادہ وزن نہ دیا۔ معصوم بچے کو اس کا بڑا افسوس ہوا اور اس نے دل میں کہا کہ میری سچائی کو اللہ خود بیان کر دے گا۔ حضرت عمیرؓ بیان کیا کرتے تھے کہ انھیں منافقین کی دل آزار باتوں سے تو دکھ پہنچا ہی تھا، جب ان کی بات اہلِ حق کی مجلس میں بھی نہ مانی گئی تو وہ اور بھی آزردہ ہو گئے اور آنکھوں میں آیت آنسو آ گئے۔ سبحان اللہ یہ معصوم آنسو اللہ کو کس قدر پسند آئے کہ وحی ربانی نے آکر ان کے آنسو پونچھے اور ان کی تصدیق فرمائی۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی:
یہ آیت اس سلسلۂ آیات کا حصہ ہے جن میں منافقین کو طشت از بام کر دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:’’یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی، حالانکہ انھوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انھوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ یہ ان کا سارا غصہ اسی بات پر ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ہے! اب اگر یہ اپنی اس روش سے باز آئیں تو انھی کے لئے بہتر ہے، اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو۔‘‘ (التوبۃ۹:۴۷) الجلاس نے اس کے بعد سچی توبہ کرلی اور بعد کی زندگی نفاق سے پاک ہو کر اسلام کے مخلص پیروکار کی حیثیت سے گزاری۔ (تفسیر ابن کثیر ج۳، ص ۴۲۴۔۵۲۴ تفسیر آیت محولہ بالا)
زندہ معاشروں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ان کا ماحول بذاتِ خود ایک درس گاہ کا کام کرتا ہے۔ نسلِ جدید کو ایسا پاکیزہ، منظم اور بامقصد ماحول میسر آجاتا ہے جو ایک خاص اور متعین سمت میں ان کی راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دیتا رہتا ہے۔ ایسے معاشروں میں اگر کچھ عناصر بنیادی مقاصد اور طے شدہ اخلاقی ومعاشرتی اقدار کے خلاف طرزِ عمل اپنانا چاہیں تو معاشرے کا مجموعی ضمیر اور عمومی فضا اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یوں بے قاعدگی کے شکار افراد اور گروہ معاشرے میں نکو بن کر رہ جاتے ہیں۔ جب معاشرے اپنی سمت ہی متعین نہ کرسکیں تو ہر چیز افراتفری کا شکار ہوجاتی ہے اور تخریب کاروں کوکھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ دورِ نبوی کے پاکیزہ معاشرے میں نوخیز بچے بھی اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح جانتے تھے اور ان کو بکمال و تمام ادا بھی کرتے تھے۔ سیرتِ نبوی کا مطالعہ اور سیرت صحابہ کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایسے بے شمار ایمان افروز واقعات سامنے آتے ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ اس زندہ ضمیر معاشرے میں بے ضمیروں کے لئے کوئی گنجائش اور رو رعایت نہ تھی۔ اسلامی ریاست اور اس کے سربراہ نبئ رحمتؐ کے خلاف جہاں کسی نے خبث باطن کا مظاہرہ کیا وہیں اس کا محاسبہ کرنے کے لئے زندہ ضمیر ابنائے اسلام میدان میں آجاتے تھے۔
پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ اسلام میں حب رسول اور اطاعت رسولؐ کے ساتھ طاغوتی نظام سے نفرت کا بھی درس دیا گیا ہے۔ آج ہمارا پورا نظام طاغوتی بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ ایک المیہ ہے۔ گھر اور گلی محلہ، سکول اور کالج، ماحول اور معاشرہ جس سانچے میں نسلِ نو ڈھالنے کے لئے سرگرم عمل ہو، نوخیز بچے اور نوجوان اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ مسلم معاشرے کے ہر گھر میں بچوں کے لئے اگر ماحول ایسا فراہم کیا جائے جہاں روزمرہ کے معمولات اور گھروں کے شب وروز سیرت مصطفی ؐاور سیرت صحابہؓ و صحابیاتؓ کے واقعات کے گرد گھومنے لگیں تو کوئی داخلی سازش اور خارجی دشمن اس کی بنیادیں کھوکلی کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو بھول چکے ہیں، اپنی اصل سے کٹ گئے ہیں اور ہر سراب کو آب حیات سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ آبِ حیات ہمارے اور صرف ہمارے پاس ہے۔ پوری دنیا تو روشن خیالی کے محض دعوے کرتی ہے، حقیقت میں وہ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں کہ جو خدا کو بھول جائے، وہ اپنی اصلیت کو بھی بھول جاتا ہے۔ اے کاش امت اس حقیقت کو پاسکے۔ اگر ایسا ہو تو آج بھی عمیر بن سعدؓ، اسامہ بن زیدؓ اور علیؓ بن ابی طالب کی مثالیں نظر آسکتی ہیں۔ جوہرِ قابل آج بھی موجودہے مگر ہمارا نظام لارڈمیکالے اور کلائیو کے نقشے پر استوار ہے۔ اسے بدلیں گے تو ان شاء اللہ قسمت بدل جائے گی۔ اقبالؒ امید کی شمع روشن رکھتے تھے۔ فرمایا
نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!
انھوں نے بد دل اور مایوس دانش وروں اور رہبروں کو یہ نکتہ یوں سمجھایا
نو مید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
حافظ محمد ادریس
0 Comments