عرب دنیا میں ترکِ قادیانیت کی تازہ لہر

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

عرب دنیا میں ترکِ قادیانیت کی تازہ لہر

قادیانیت ہندوستان میں انگریزاستعمارکا پیداکردہ فتنہ تھا جس نے امت مسلمہ کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت پر حملہ آور ہو کرمسلمانوں کے ایمان کولُوٹنے کی پوری کوشش کی۔ بیرونی قوتوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے قادیانیت کو پروان چڑھا کر مسلمانوں کی اجتماعیت و مرکزیت پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی تھی۔ 1928میں فلسطینی علاقے حیفا (اب اسرائیل میں شامل) کے مقام پر قادیانی مشن قائم کیاگیا۔ اسرائیل جہاں مسلمانوں کو جان وایمان کی آزمائشوں کا سامنا ہے، یہ قادیانی مشن وہاں آج بھی پوری آزادی سے کام کر رہا ہے اورعرب دنیا میں اسرائیل کو قادیانیوں کے ہیڈآفس کا درجہ حاصل ہے۔ اسرائیل سے مسلمانوں کو قادیانی بنانے کا جومذموم دھندا شروع ہواتھا ،اُس کے نتیجے میں عرب ملکوں میں اس فتنے کی گم راہی سے بے خبرمسلمان قادیانیت کو اِسلام سمجھ کر اِرتداد کا شکارہوتے رہے ہیں۔

یہاں یہ کہنابے جا نہ ہوگا کہ قادیانیوں کے حمایتی لبرل اورسیکولرحضرات آخراِس حقیقت کا ادراک کیوں نہیں کرتے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردے کرپورے عالم اسلام پر قادیانیت کے کفر واِرتداد کو واضح کردیا تھا۔ ورنہ قادیانی اسلام کا لبادہ اوڑھ کرمستقلاً لاکھوں مسلمانوں کی گمراہی کا باعث بن جاتے ۔ قادیانی اگر اپنے مذہب کو اِسلام نہ کہیں تو اُن کی اصلیت آشکارا ہو جاتی ہے۔ دجل اورتلبیس ہی قادیانیوں کے وہ ہتھیارہیں،جن کی بدولت وہ اپنی گمراہی اور اِرتداد کو اِسلام کا نام دے کر دُنیا کودھوکا دیتے ہیں۔ اُردن کی ایک جدید تعلیم یافتہ شخصیت جناب امجد سقلاوی، قادیانیت سے ناواقفیت کی بناء پر اس کے فریب میں آکر اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں پھر ہدایت سے نوازا اوروہ چند برس پہلے قادیانیت کو ترک کرکے دوبارہ اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہو گئے۔ امجد سقلاوی دوبارہ مسلمان ہونے کے بعد فارغ نہیں بیٹھے،بلکہ انھوں نے قادیانیوں پر اِسلام کی حقانیت واضح کرنے کے لیے مسلسل محنت جاری رکھی ہے اورفیس بک پر روزانہ کی بنیاد پر اسلام کی دعوت کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔ قادیانیوں سے مستقلاً بحث ومباحثہ میں مشغول رہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں قادیانیت کو چھوڑنے والوں میں ان کا نام سرفہرست ہے۔ تمام سابق قادیانی اور اب نومسلم اُن کے رابطے میں ہیں۔
حال ہی میں اسلام کی روشنی سے منورہونے والوں میں دیگر خوش قسمت افراد کے علاوہ فلسطین سے تعلق رکھنے والے معروف قادیانی جناب ہانی طاہرانٹرنیٹ کے ذریعے سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے 31 اگست کو اسلام قبول کرلیا ہے۔ یہ قادیانیت کے لیے بہت بڑادھچکا ہے ۔ 47 سالہ سابق قادیانی مبلّغ ہانی طاہر کا شمارپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے فلسطین اور مصر نیز دیگر عرب ممالک میں عرصہ دراز سے قادیانیت کا پرچار کرنے والے اہم افراد میں ہوتا تھا۔
یاد رہے کہ استاد ہانی طاہر کے فلسطین میں قادیانی جماعت کے سربراہ شریف عودہ سے کچھ عرصہ سے قادیانی عقائد پر اختلافات بھی چلےآ رہے تھے اور ان کی وجہ سے فلسطین اور مصر میں قادیانی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔ہانی طاہر کا قادیانیت ترک کرنا عرب ممالک میں تحفظ ختم نبوت کا کام کرنے والے کارکنوں کے لیے ایک عظیم الشان خوش خبری اور اہل ایمان کے لیے ایک بہت بڑی فتح ہے ۔

ہانی طاہرالیکٹریکل انجنیئرنگ میں ماسٹر اورالشریعہ میں بیچلرکی ڈگری کے حامل ہیں۔ وہ قادیانیوں کے عرب ٹی وی چینل 3 کے پروگراموں الحوار المباشر، سبیل الہدیٰ، قرآۃ فی الصحف اور الخزائن الروحانیة کے میزبان کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ ہانی طاہر نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں بتایا کہ ”جب تک مرزا قادیانی کی تحریروں کا عربی زبان میں ترجمہ نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت تک ہمیں قادیانی جماعت کی طرف سے قادیانیت کے بارے میں جو کچھ بتایا جاتاتھا۔ ہم اُسے ہی سچ سمجھتے تھے ، لیکن جب مرزا غلام احمدمقادیانی کی کتابوں اور خاص طور پر ان کے جاری کردہ اشتہارات کا عربی ترجمہ ہوا، تو میری آنکھیں کھلیں اور مجھے پتا چلا کہ مرزا قادیانی کی تو سبھی پیشین گوئیاں جھوٹی نکلی تھیں اور الحمدللہ!میں اس فیصلہ کن نتیجہ پر پہنچا کہ درحقیقت مرزا قادیانی نہ تو مہدی ہے اور نہ وہ مسیح موعودہے''۔

ہانی طاہر کے مطابق مرزاقادیانی کے مرنے کے بعد اُس کے جانشینوں نے بھی بہت سے ایسے عقائد ایجاد کرلیے تھے جوخود مرزا قادیانی کی تحریروں کے برعکس ہیں، لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں دجل وفریب کی اس دلدل میں مزید نہیں رہ سکتا۔ ہانی طاہر نے قادیانیوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ بے شک اُن کے کہنے پر قادیانی جماعت نہ چھوڑیں، لیکن وہ صرف ایک بار خودمرزاقادیانی کی کتب کا مطالعہ کریں اورحقیقت تک پہنچیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ مرزا قادیانی کا لکھا ہوا سارا لٹریچر براہ راست پڑھ لیں تو اُن کے لیے قادیانیت میں ایک دن رہنا بھی ممکن نہیں رہے گا ۔ ہانی طاہر نے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ جانے کی بجائے مرزا قادیانی کے کفریہ عقائد اور قادیانیت کے دجل وفریب کا پردہ چاک کرنا شروع کردیا ہے اوروہ تقریباً ہرروز ایک نیا ویڈیوبیان ”یوٹیوب“ پر اَپ لوڈ کرتے ہیں۔ جس میں مرزا قادیانی کی ناکام پیش گوئیوں سے لے کر ،اُس کے پیش کردہ قرآن وحدیث کے جھوٹے حوالوں اور قادیانی جماعت کی مبالغہ آمیز باتوں سے پردہ اٹھایا جاتاہے۔ ہانی طاہرکے چشم کشا بیانات کے اثرات رنگ لارہے ہیں اوراُن کی بدولت مزید عرب حضرات جو قادیانیت کی دلدل میں پھنس چکے تھے ،وہ اسلام کی طرف لوٹنا شروع ہوگئے ہیں اور یہ ایک خوش آیند بات ہے۔

قادیانی اس صورت حال سے بہت پریشان نظر آتے ہیں۔عرب قادیانی چینل ایم ٹی اے کی ٹیم نے شریف عودہ قادیانی کی سربراہی میں ہانی طاہر کی پیش کردہ ویڈیوز کے جوابات وڈیوزکے ذریعے دینے کی ناکام کوشش کی ہے،مگراُن میں ہانی طاہرکی ذات کے خلاف طعن وتشنیع کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور وہ ابھی تک ہانی طاہر کے پیش کردہ دلائل اور حوالہ جات کو غلط ثابت نہیں کرسکے ہیں۔قادیانی ہانی طاہرکو مخاطب کرتے ہوئے کبھی یہ کہتے ہیں کہ کیا تم پہلے جاہل اور اندھے تھے جو تم مرزاقادیانی کو مہدی، مسیح اور نبی سمجھتے تھے؟ کبھی کہتے ہیں کہ تم خود مرزاقادیانی کی صداقت کی دلیلیں دیا کرتے تھے،مگر اَب تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ وغیرہ۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق شریف عودہ قادیانی نے اپنی ایک ویڈیو میں اپناغصہ یہ کہہ کر نکالاہے کہ ''ہانی طاہر کے قادیانی جماعت چھوڑنے سے پہلے ہی ہمارے بہت سے قادیانیوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ہانی طاہر مرتد ہوجائے گا اور ایسے ہی ہوا ہے''۔ واضح رہے کہ ہانی طاہر کوئی عام قادیانی نہیں تھا،بلکہ اُس نے قادیانیت پر کیے گئے مسلمانوں کے اعتراضات کے جواب میں ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب ''شبہات وردود'' کے نام سے عربی میں لکھی تھی۔

اب قادیانیت کے مکروفریب سے بڑی تیزی کے ساتھ پردہ ہٹتا چلا جا رہا ہے، کیونکہ بہروپ کی زندگی بہت مختصر ہوا کرتی ہے۔ مجلس احراراسلام کے بزرگ قادیانیت کو مذہب نہیں، بلکہ سیاسی مرتد گروہ سمجھتے تھے جس نے مذہب کی چادراَوڑھ کربرطانوی استعمارکے مقاصد کی تکمیل کو حرزِ جاں بنائے رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی قادیانیوں کا ہیڈکوارٹر برطانیہ میں ہے اوراُن کا سربراہ مرزامسرور بھی برطانیہ کو اَپنا مسکن بنائے ہوئے ہے۔ ہانی طاہربارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا ہے۔ اب عرب دنیا کے قادیانی اسلام کی حقانیت کو پا رہے ہیں۔ حال ہی میں شام اورمصر سے تعلق رکھنے والی تین عرب قادیانی خواتین نے اسلام قبول کیا ہے۔ ان میں سے ایک خاتون کا تعلق شریف عودہ قادیانی کے علاقہ فلسطین سے بتایا جاتا ہے ۔یہ خاتون پیشے کے لحاظ سے صحافیہ ہیں۔ اسی طرح ایک اورقابل ذکر قادیانی احمد محمود عبدالجواد نے بھی حال ہی میں قادیانیت کو خیرباد کہہ دیا ہے ۔ ستمبر کے اوائل میں مصر سے تعلق رکھنے والے استاد فاروق اسماعیل اور ان کے دوستوں کا ایک پورا گروپ اپنی فیملیوں سمیت قادیانیت سے توبہ تائب ہو کر اسلام قبول کرچکا ہے۔

ان بدلتے ہوئے حالات کا تقاضاہے کہ عرب ممالک میں تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والے مسلمان اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائیں اوربکھرتے ہوئے قادیانی نیٹ ورک کو سنبھالیں اورمتذبذب قادیانیوں کو اسلام کے دامن میں لانے کے لیے دن رات ایک کردیں تاکہ عالم اسلام قادیانیت کے ناپاک وجودسے پاک ہو جائے،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تحفظ ختم نبوت کے کارکنان خود کواس محاذ پرروایتی طریق کارکے بجائے دلائل اوربراہین کے جدید ہتھیاروں سے مسلّح کریں۔ جدید اسلوبِ گفتگو اورمکالمہ کی زبان استعمال میں لائیں۔ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کے میدان میں اپنا کرداراَدا کریں اورقادیانیوں کے عالم اسلام کے خلاف ناپاک عزائم اور منصوبہ بندی کو بے نقاب کریں۔

ڈاکٹر عمر فاروق احرار

Post a Comment

0 Comments