تمام اخبارات کے سرورق پر قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ترجمہ شائع ہوتا ہے۔ قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی ؐ کا احترام سب پر لازم ہے اس تنبیہ کے ساتھ حجت تمام کر دی جاتی ہے، لیکن کیا اِس حجت کے بعد اخبارات ، قارئین، حکومت اور عوام الناس سب اپنے فرائض سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟رمضان المبارک ہو حج کا موقع ہو ، معراج شریف، شبِ برأت کا تہوار، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی ولادت و شہادت کے ایام ہوں یا اولیاء کرام سے متعلق تاریخی واقعات ہوں، تمام اخبارات مذہبی معلومات سے بھرپور خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں اور کرنے بھی چاہئیں۔ اِس کے علاوہ عمومی طور پر رحمن، رحیم، کریم اللہ کے بہت سارے نام اور آقا کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام محمدﷺ، احمدؐ ، مسلم ناموں کا لازمی حصہ ہوتے ہیں، لیکن اگلے ہی روز اِن مقدس اوراق کے ساتھ جو بے ادبی ہوتی ہے، وہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے۔
تندور کی روٹی اور سموسے لپیٹنے سے لے کر سبزی اور فروٹ کی پیٹیوں سمیت دیگر کئی مصنوعات کی پیکنگ میں یہ اخبارات بطور ردّی استعمال ہوتے ہیں، پھر یہ ردّی ناقابلِ استعمال ہو کر گلی محلوں اور بازاروں میں پاؤں تلے روندی جاتی ہے۔ یوں ہم اِن مقدس اوراق کی بے حرمتی کی بدترین مثال قائم کرتے ہیں۔ تمام تر بدتہذیبی کے بعد اِن اخبارات کا آخری ٹھکانہ کوڑے کا ڈھیر ہوتے ہیں۔ خدانخواستہ اخبار کے علاوہ اِس طرح کے مقدس اوراق کی بے حرمتی کاکوئی واقعہ رونما ہو جائے تو ہمارے علماء کفر کا فتویٰ جاری کر دیں گے اور عوامی ردعمل سے نوبت قتل و غارت تک پہنچ سکتی ہے۔ اخبارات کی ردّی کے معاملے میں یہ مجرمانہ غفلت اور خاموشی معاشرے کے تمام طبقات کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔
اخبارات میں شائع ہونے والے مقدس اوراق، قرآن پاک کا ترجمہ اور احادیث نبویؐ کو بے حرمتی سے محفوظ رکھنے کے لئے حکومت ، علماء اور صحافتی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ حکومت اخبارات کو بطور ردّی فروخت کرنے اور استعمال پر پابندی عائد کر کے سختی سے اِس پر عمل درآمد کرائے۔ صحافتی تنظیمیں اِس حوالے سے اخبارات کے ذریعے موثر آگاہی مہم کا اہتمام کریں۔ صحافتی تنظیمیں گلی، محلوں اور بازاروں کی سطح پر ایسا انتظام متعارف کروائیں کہ قارئین مطالعہ کے بعد اخبار کو محلے یا مارکیٹ میں نصب شدہ مخصوص بکس میں ڈال دیں پھر ہفتہ وار اِن اخبارات کو اخبار بکس سے نکال کر احترام کے ساتھ کسی محفوظ جگہ پر منتقل کر دیا جائے۔
امتیاز کمبوہ
0 Comments