زندگی بہت خوبصورت اور انمول تحفہ ہے اس کی اصل خوبصورتی اور رونق والدین کے دم سے ہے۔ گلاب جیسی خوشبو،سچائی کا پیکر، لازوال محبت ، شفقت اور قربانی جیسے الفاظ یکجا ہوجائیں تو دو الفاظ بن جاتے ہیں "ماں اور باپـ" ماں باپ کی محبت ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی مانند ہوتی ہے جس میں اولاد کے لیے محبت، تحفظ اور احساس کے جذبے پروان چڑھتے ہیں ۔
ماں ، باپ کہنے کو تو دو چھوٹے سے الفاظ ہیں مگر ان الفاظ میں کتنی گہرائی ہے ہر کوئی اس گہرائی کو نہیں جان سکتا اور نہ ہی کسی کی اس حدتک رسائی ممکن ہے۔ جس طرح اللہ رب العزت کی نعمتوں کا شمار کرنا ممکن نہیں اسی طرح والدین کے پیار اور خلوص کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے کیوں کہ زمانے میں پڑے ہوئے لالچ وحرض کی وجہ سے ہر شخص دوسرے سے صرف ذاتی مطلب اور مفادات کی بنا پر ملتا ہے لیکن والدین کاوہ واحد رشتہ ہے جس میں لالچ اور حرض کی بجائے بے پناہ خلوص اور پیار ہوتا ہے ان کے خلوص اور پیار کو نجانے کتنے لوگوں نے بحیثیت اولاد اپنے جذبوں کو الفاظ کی شکل دے کر قلم بند کیا ہوگا مگر آج تک کوئی بھی ان کے ایثار ومحبت اور تحفظ کے احساس کو مکمل بیان نہیں کرسکا۔
والدین بہت ہی ناز نخروں سے اپنی اولاد کو پالتے ہیں اوران کی تربیت کے لیے کٹھن مراحل سے گزرتے ہیں مگر جب اولاد جوان ہوتی ہے تو فراموش کر دیتی ہے۔ حالانکہ اگر آج یہ نوجوان کھڑا ہے یا بولتا ہے تو ماضی میں یہ والدین کا ہی محتاج تھا جنہوں نے اسے بولنا اور چلنا سیکھایا مگر زندگی کی یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو کہ کتاب کی مانند ہے۔ زندگی کی کتاب کے کچھ اوراق خوشیوں سے بھرے ہوتے ہیں جبکہ کچھ اوراق غم اور بے بسی کے ہوتے ہیں، غم اور بے بسی اُسی وقت محسوس ہوتی ہے۔ جب کوئی اپنا جُداہوجائے یا غلط فہمیوں کی بھینٹچڑھ کر دور ہو جائے۔
اگر ایک انسان اپنے کسی محبوب کی جدائی یا اُسکا بدل جانا براداشت نہیں کرسکتا تو وہ خلوص اور محبت کی پیکر ہستی ذات والدین کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ اُن کی اولاد جوان ہوکر غلط فہمیوں کی بھینٹ چڑھ کر بدل جائے حالانکہ بڑھاپے میں والدین کو اپنی اولاد کی زیادہ توجہ، وقت اور خلوص درکارہوتا ہے مگر کیوں کہ دور جدید ترقی کا دور ہے ہر شخص ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑاور آسائشوں کی طلب میں آگے نکلنا چاہتا ہے اس مقابلے بازی کی دوڑ میں اپنے سے جڑے ہر رشتے کو فراموش کرکے صرف "میں"کی تگ ودومیں لگ جاتا ہے۔
حالانکہ اس" میں "کی جگہ "ہم "کا عنصر غالب ہونا چاہیے ہم سے مراد وہ والدین جن کی وجہ سے اولاد اعلی مقام پر پہنچتی ہے۔ ماں کی تو ایک رات کا بدلہ انسان ساری زندگی نہیں اتارسکتا تو چند پیسے یاضروریات پوری کرکے اولاد یہ سمجھ لے کہ میں نے والدین کا احسان چکا دیا ہے تو یہ سراسر غلط ہوگا۔ چونکہ زمانہ میں جہالت اور لاشعوری کی وجہ سے کا رواج بڑھ رہاہے اولاد اپنے فیصلوں میں خود مختار ہونا چاہتی ہے حالانکہ یہ سراسر جہالت اور گمراہی ہے کیونکہ والدین کو عمرکا خاصا تجربہ ہوتا ہے سمجھدار اولاد اُنکے تجربوں سے فائدہ اُٹھاتی ہے جبکہ بدقسمت اور ناسمجھ اولاد اپنے فیصلے خود کرکے پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ اگر اولاد والدین کی رضا اپنے فیصلوں میں شامل کر لیں تو اس سے ناصرف ان کے فیصلے صحیح ہوں گے بلکہ برکت کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا بھی شامل ہو جائے گی۔
اگر اسلامی نقطہ نظر سے والدین کا مقام دیکھا جائے تو اللہ ر ب العزت نے جتنے بھی حقوق العباد کا ذکر کیا ہے ان میں سب سے زیادہ اولیت اور اہمیت والدین کے حقوق کو دی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ والدین سے بڑھ کر واجب الااحترام اور حق دنیا میں کسی کا بھی نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور اس کا بہت اجر رکھا ہے مگر اس کے باوجود بھی اگر کوئی اولاد اپنے والدین کی نافرمانی کرتی ہے تو گویا وہ دہرا گناہ کرتی ہے ایک طرف تو وہ اپنے والدین کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے تو دوسری طرف اللہ رب العزت کے حکم کی خلاف ورزی کا مجرم بن جاتاہے۔
حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ "والدین کا نافرمان روزے رکھے نمازیں پڑھے یہاں تک کہ نیک اعمال کرنے میں منفرد ہو جائے مگر ایسی حالت میں مر جائے کہ اس کے والدین اس سے ناراض اور خفا ہوں تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر شدیدغضبناک ہوں گے" بحیثیت اولاد ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور انکے حکم کے آگے اُف تک نہ کریں۔
والدین کے احکامات کی بجاآوری میں دیر نہ کریں تاکہ میداںِ حشر اپنے رب کی عدالت میں حاضر ہوں تو شرمندگی سے بچ سکیں۔ مختصراً یہ کہ دنیا میں اگرحقیقی محبت کا وجود ہے تو وہ صرف والدین کی محبت ہے جو اللہ رب العزت کا بیش بہا اور قیمتی تحفہ ہے لہذا اولاد کو چاہیے کہ ایسی زباں کی تیز ی ان والدین پر نہ چلائیں جنہوں نے انہیںبولنا سیکھایا کیوں کہ اگر والدین اولاد کے غصے کے خوف کی وجہ سے ان سے بات کرتے ہوئے جھجک اور ڈر محسوس کریں تو پھر یہ باعث شرمندگی وندامت ہے کیوں کہ اگر ایسا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اولاد نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی مغفرت کا دروازہ بند کردیا ۔ والدین وہ ہستی ہیں جن کے خلاف کچھ کہنابھی گناہ ہے۔ اولاد کو چاہیے کہ جیسے والدین نے بچپن میں بچوں کو شہزادوں کی طرح پالا اسی طرح وہ بڑھاپے میں والدین کوبادشاہوں کی طرح رکھیں
اللہ رب العزت ہم سب کو والدین کافرماں بردار بننے کی توفیق دے آمین
سنیا گیلانی
0 Comments