حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے: ’’ایک انسان کا اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک کا اعلی درجہ یہ ہے کہ اسکے چلے جانے کے بعد اس کے ساتھ تعلقات رکھنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ صحیح مسلم
حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے، قبیلہ بنو سلمہ کے ایک صاحب آپکی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اورعرض کیا یارسو ل اللہ (صلی اللہ علیک وسلم )میرے والدین کے انتقال کے بعد(میرے لیے)انکے حسنِ سلوک کا کوئی درجہ باقی ہے ، آقاکریم علیہ والصلوٰۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا : ہاں ؛ہاں! (کیوں نہیں)ان کیلئے دعائیں کرنا، (اللہ سے )انکی مغفرت طلب کرنا ، انکے عہد کو جو انھوں نے کسی سے کررکھا ہوا پورا کرنا(اوراسے احسن طریقے سے نبھانا)، انکے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اورانکے دوستوں کا اکرام کرنا ۔ایک اور روایت میں آتا ہے کہ اس شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ کیسی بہترین اورعمدہ بات ہے ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا: تو پھر اس پر عمل کرو۔ صحیح ابودائود ،الترغیب والترہیب
حضرت ابن دینار رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما مکہ معظمہ کی طرف محوِ سفر تھے، راستہ میں انھوں
نے ایک صحرانشین (اعرابی )کو دیکھا ، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری روک دی، اس سے نیچے اتر پڑے اوروہ سواری اس اعرابی کو دے دی اپنے سر سے عمامہ اتارا اوروہ بھی اسی کی نذر کردیا ، ابن دینار کہتے ہیں کہ ہمیں اس پر بڑا تعجب ہوا اورمیں نے آپ سے عرض کیا کہ حضور! یہ شخص تو اس سے کم درجہ احسان ومہربانی پر بھی بہت خوش ہوجاتا جبکہ آپ نے تو اسے اپنی سواری اور عمامہ دونوں نذرکردیے ، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا: اس شخص کا باپ میرے والد گرامی (امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ ) کے دوستوں میں تھا، اورمیں
نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ’’بہترین صلہ انسان کا اپنے والد کے دوستوں پر احسان کرنا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں
مدینہ منور ہ حاضر ہوا تو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملنے کیلئے تشریف لائے اورمجھ سے استفسار فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہاری ملاقات کیلئے کیوں آیا ہوں(بات یہ ہے کہ ) میں
نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ’’جو شخص یہ چاہے کہ اپنے باپ کے ساتھ اسکی قبر میں صلہ رحمی کرے ، اس کو چاہے کہ اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، میرے والد گرامی حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ اورتمہارے والد کے درمیان دوستانہ تعلقات تھے، میں اس (تعلق کو نبھانے کے) لیے آیا ہوں ۔ الترغیب والترہیب)
0 Comments