حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : قیامت کے دن ایک شخص کو ، (اس ذلت وضعف کی حالت میں)لایا جائیگا، جیسا کہ بھیڑ کا (کمزور ناتواں اورٹھٹھراہوا)بچہ ہوتا ہے ، اوراسے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کھڑا کردیا جائیگا، اللہ ذوالجلال والا کرام اس سے استفسار کریگا، میں نے تجھے مال عطاء کیا، خدام وحشم عطاء کیے ، تجھ پر اپنی نعمتوں کی بارش برسائی ، تو نے ان سب انعامات کے عوض کیا کارگرائی دکھائی ، وہ بندہ عرض کریگا، میں نے خوب مال واسباب جمع کیا، اس میں اپنی (کوشش وکاوش سے)خوب اضافہ کیا، اور جو آغاز میں میرے پاس تھا، اس سے بہت زیادہ کرکے چھوڑا ، اے میرے مالک تو مجھے دنیا میں واپس بھیج میں وہ تمام کا تمام تیری نذر کردوں گا
ارشادہوا، تواس مال کے بارے میں وضاحت کر، جو تو نے اپنی زندگی میں (ذخیرئہ آخرت کے طور پر )آگے بھیجا ہو، وہ پھر اپنا پہلا کلام دہرائے گا کہ میرے پروردگار میں نے خوب مال جمع کیا، اور اس میں خوب اضافہ کیا، جتنا شروع میں تھا، اس سے بہت زیادہ بناکر چھوڑا، مجھے دنیا میں واپس کردے ،تاکہ میں سب لیکر حاضر ہوجائوں (یعنی اب صدقہ وخیرات میں صرف کردوں تاکہ یہاں میرے پاس آجائے اوراسے اللہ رب العزت کے سامنے پیش کروں)چونکہ اسکے پاس تو ذخیرہ ایسا نہ نکلے گا، جو اس نے آگے بھیجا ہو(اوروہ توشہء آخرت بن سکے) لہٰذا اس پاداش میں اسے جہنم میں پھینک دیاجائے گا، (صحیح سنن ترمذی) ایک روایت میں آتا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو فرشتے یہ سوال کرتے ہیں کہ اپنے حساب میں کیا ذخیرہ جمع کرایا ہے کیا چیز کل (قیامت ) کیلئے بھیجی ہے جبکہ لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کتنا مال چھوڑ کر گیا ہے ۔ مشکوٰۃ
حضرت عمر وبن شعیب علیہ الرحمۃ اپنے والد سے اوروہ اپنے جدامجد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشادفرمایا : اس امت کی صلاح کی ابتداء (اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ) یقین اوردنیا سے بے رغبتی کے ساتھ ہوئی اوراس فساد کی ابتداء بخل اورلمبی لمبی امیدوں سے ہوگی۔ (شعب الایمان : امام بیہقی ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے۔ اُنکے سامنے کھجور وں کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا، آپ کی دریافت فرمایا کہ بلال یہ کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا، حضور والا ، یہ آئندہ کی ضروریات کیلئے ذخیرہ (اورپیش بینی )کے طور پر رکھ لیا ہے، آپ نے فرمایا : اے بلال ! تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اسکی وجہ سے تم کل قیامت کے دن جہنم کی آگ کا دھواں دیکھو، بلال (کشادہ دلی سے)خرچ کر ڈالو اورعرش والے (پروردگار)سے کمی کا اندیشہ نہ کرو۔ شعب الایمان
0 Comments