محسن انسانیتﷺکی زبان نہایت شیریں اور باوقار تھی۔ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے کہ مخاطب الفاظ کو گن سکتا تھا۔ کاش ہم مسلمان آپﷺ کا لہجہ اور انداز گفتگو کو اپنا لیتے تو فرقہ واریت کے عذاب سے بچ جاتے۔ رحمتہ الالعالمینﷺ نے اپنے تاریخ ساز خطبہ حجتہ الوداع میں ہر قسم کے تعصب اور عصبیت کو اپنے پاﺅں تلے روند ڈالا تھا۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا ”شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کردیا۔ لوگو! تم انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہو ایک نیک اور پرہیزگار جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے دوسرا فاجر اور شقی جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے ورنہ سارے انسان آدم ؑ کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم ؑ کو مٹی سے پیدا کیا تھا“۔ ترمذی
سیرت رسولﷺ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ برداشت اور رواداری سیرت کا مرکز و محور تھی۔ ایک دن آپﷺ خانہ کعبہ میں عبادت میں مصروف تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے آپﷺ کی گردن میں چادر ڈال کر بل دئیے اور کھینچنا شروع کیا۔ یہ انتہائی تکلیف دہ منظر تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے بڑی مشکل سے آپﷺ کو معیط کی گرفت سے چھڑایا۔ آپﷺ نے صبر کا مظاہرہ کیا اور اف نہ کی۔
حضور اکرم ﷺ ابولہب کے پڑوسی تھے۔ ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل آپﷺ کو اذیت پہنچاتے گھر پر پتھر پھینکتے۔ ام جمیل آپﷺ کے گھر کے باہر کانٹے بچھا دیتی۔ جب آپﷺ رات کو گھر آتے تو کانٹے پاﺅں میں چبھ جاتے جن کو نکالتے تو پاﺅں سے خون بہنے لگتا۔ ایک روز گھر کا راستہ صاف پایا تو معلوم ہوا ام جمیل بیمار ہے۔ آپﷺ اس کی تیمارداری کیلئے اس کے گھر تشریف لے گئے۔
حضور اکرمﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو بتایا کہ طائف کا دن ان کی زندگی کا سخت ترین دن تھا۔ آپﷺ تبلیغ دین کیلئے طائف تشریف لے گئے تھے وہاں پر غنڈوں اور آوارہ لوگوں نے آپﷺ کو سخت اذیت کا نشانہ بنایا اور آپﷺ کی ٹانگوں اور پاﺅں پر اس قدر پتھر مارے کہ نعلین مبارک خون سے بھر گئے‘ جسم زخموں سے چور تھا۔ آپﷺ نے بوجھل دل کے ساتھ یہ دعا فرمائی۔
اے میرے رب میں اپنی طاقت کی ناتوانی، اپنی قوتِ عمل کی کمی اور لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے بسی کا ذکر آپ کی بارگاہ میں کرتا ہوں۔ اے رحیم اور رحمن آپ کمزوروں کے رب ہیں۔ آپ میرے بھی رب ہیں۔ آپ مجھے کس کے حوالے کرتے ہیں؟ ایسے لوگوں کے حوالے جو ترش روئی سے پیش آتے ہیں۔ کیا کسی دشمن کو آپ نے میری قسمت کا مالک بنادیا ہے۔ اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے ان تکالیف کی کچھ پروا نہیں پھر آپ کی طرف سے عافیت اور سلامتی میرے لیے زیادہ دلکشا ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں آپ کی ذات کے نور کے ساتھ کہ جس سے تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دنیا و آخرت کے کام سنور جاتے ہیں۔ میں آپ کی رضا طلب کرتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ آپ راضی ہوجائیں آپ کی ذات کے بغیر نہ میرے پاس کوئی طاقت ہے اور نہ کوئی قوت ہے۔ سبل الہدی
رب نے اپنے نبی کی دعا سن لی۔ فرشتے حاضر ہوئے پہاڑوں کو طائف کی وادی پر الٹ دینے کی اجازت طلب کی۔ آپﷺ نے فرمایا ”اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو انشاءاللہ انکی نسلیں ضرور خدا پر یقین لائینگی۔
معاملات رسولﷺ اسلام کے غلبے کے بعد جب طائف کے سردار مدینہ آئے تو آپ ﷺ نے اپنے سخت ترین مصائب کو فراموش کرکے اور ہر قسم کے تعصب کو ایک طرف رکھ کر ان کیلئے مسجد نبوی میں خیمہ نصب کرایا اور خود ان کی مہمان نوازی کی۔ ایک بدوی نے ایک مرتبہ مسجد نبوی میں پیشاب کردیا۔ صحابہؓ اسے مارنے کیلئے دوڑے مگر آپﷺ نے ان کو روکا اور بدوی کو اپنی حاجت سے فارغ ہونے دیا۔ پھر آپﷺ نے اس جگہ کو دھونے کا حکم دیا اور بدوی کو نرمی کیساتھ مسجد کے آداب سمجھائے۔ مسلم
ارشاد ربانی ہے ”ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذراسی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اسکی صفت ہو“۔ 263:2
حضور اکرمﷺ نے ناداروں اور مفلسوں کی مالی اعانت کیلئے ایک یہودی عالم سے دینار قرض لیا۔ یہودی قرض کی ادائیگی کی مدت ختم ہونے سے پہلے اپنا قرض واپس لینے کیلئے مسجد نبوی آیا اور آپﷺ کا گریبان پکڑ کر قرض واپس کرنے کا تقاضہ کرنے لگا۔ اس نے گستاخ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے قبیلے کے لوگ قرض لیتے ہیں پھر واپس نہیں کرتے۔ حضرت عمرؓ توہین رسالت ﷺ برداشت نہ کرسکے انہوں نے تلوار سے یہودی کا سر قلم کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپﷺ نے فرمایا اے عمرؓ یہودی کو قتل کرنے کی بجائے اسے قرض عمدگی سے واپس مانگنے کی نصیحت کرو اور مجھے قرض واپس کرنے کیلئے کہو۔ یہودی آپﷺ کا رویہ دیکھ کر کہنے لگا خدا کی قسم میں اپنا قرض واپس لینے کیلئے نہیں بلکہ یہ دیکھنے کیلئے آیا تھا کہ کیا اللہ کے نبی میں برداشت اور رواداری کا جذبہ موجود ہے۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے سچے نبی ہیں اور اپنا قرض مسلمانوں کیلئے صدقہ کرتاہوں۔ سنن بیہقی: معاملات رسولﷺ
فتح مکہ کے بعد آپﷺ نے برداشت، رواداری، عفو کرم کے وہ مثالی عملی نمونے پیش کیے کہ انسانی تاریخ آج بھی ان واقعات پر حیران و ششدر ہے۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھیس بدل کر حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے آپﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ کی لاش سے جو وحشیانہ سلوک کیا تھا اس کی وجہ سے وہ خوف زدہ تھی۔ آپﷺ نے اسے پہچان لیا اور معاف کردیا وہ اس برداشت پر حیران رہ گئی۔ گھر واپس آئی اور بت توڑ کر کہنے لگی ”ارے کمبخت ہم تو تیرے بارے میں دھوکے میں مبتلا رہے۔ [البدایہ و النہایہ] حضرت حمزہؓ کا قاتل وحشی بن حرب فتح مکہ کے بعد طائف بھاگ گیا تھا۔ جب آپﷺ نے عام معافی کا اعلان کردیا وحشی حضور اکرمﷺ کی خدمت میں پیش ہوا اسکی زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھا اور آپﷺ سے جان بخشی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کیا وحشی آیا ہے؟ عرض کیا جی ہاں یارسول اللہﷺ ۔ ارشاد ہوا ذرا یہ تو بتاﺅ تم نے میرے پیارے چچا کو کیسے شہید کیا؟ جب وحشی نے واقعہ بیان کیا تو آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ ارشاد ہوا مجھ سے اپنا چہرہ دور کرلو ہم نے تمہیں معاف کیا۔ تاریخ نے عفو و
درگزر اور برداشت کی ایسی مثال کبھی نہ دیکھی ہوگی۔ بخاری
ایک روز انصار اور مہاجرین چشمہ سے پانی لینے پر جھگڑ پڑے دونوں گروہوں نے تلواریں نکال لیں۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے انصار کو بغاوت کیلئے اکسایا اور مہاجرین سے اتحاد ختم کرانے کی کوشش کی۔ جب یہ خبر صحابہ تک پہنچی تو حضرت عمرؓ نے آپﷺ سے اس منافق کی گردن اُڑانے کی اجازت طلب کی۔ آپﷺ نے فرمایا کیا تم یہ چرچا پسند کرتے ہو کہ محمدﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کردیا کرتے ہیں۔ بخاری
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد ﷺسے اُجالا کردے
قیوم نظامی
0 Comments