فرقان عربی میں بڑا جامع لفظ ہے۔ اس کا معنی ہے، حق اور باطل، کھرے اور کھوٹے، سچے اور جھوٹے کا فرق بتا دینے والا۔ قرآن مجید بھی الفرقان ہے، بلکہ اس دنیا میں اصل فرقان (کسوٹی) اللہ کی یہ سچی اور آخری کتاب ہی ہے۔ رسولِ رحمتؐ بھی فرقان ہیں اور آپ ؐ کی حیاتِ طیبہ کے اکثر واقعات بھی فرقان ہیں۔ ان واقعات میں سے سب سے زیادہ معروف اور حیرت انگیز معجزات سے بھرپور واقعہ غزوۂ بدر ہے۔
اسے قرآن مجید نے ’’یوم الفرقان‘‘ کہا ہے۔ اس واقعہ کی کچھ تفاصیل پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ اسلام کتنی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اور کفر کس قدر بودی اور بے وقعت بنیادوں پر کھڑا ہے۔ جنگ بدر تاریخ اسلامی ہی نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اللہ نے ا س پہلے معرکے میں اہلِ ایمان کو شان دار فتح عطا فرمائی۔ پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کی دھاک بیٹھ گئی اور کفر کی ہوا اکھڑ گئی۔ قریش کا رعب اور دبدبہ خاک میں مل گیا۔ مدینہ کے یہود اور منافقین مایوس ہوگئے، مگر ان کے دلوں کا کینہ اندر ہی اندر لاوا بن کر پکتا رہا۔ شکست کی خبر مکہ میں پہنچی تو پورا شہر سکتے میں آگیا۔
کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا، جس کے افراد جنگ میں قتل نہ ہوئے ہوں یا مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی نہ بن گئے ہوں ۔ غم اور حزن کے سایے شہر پر چھا گئے۔ لوگوں کے دلوں سے خوشی اور ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ جنہیں چند سال پہلے تک مکہ کی وادیوں میں گھسیٹا جارہا تھا وہ مستضعفین بے سروسامانی کے باوجود اپنے ایمان کی قوت سے اسلحے کی طاقت اور مادی وسائل پر غالب آچکے تھے۔
ہزیمت کی خبر سننے کے بعد ایک بار تو مکہ کی فضائیں ماتم کے کہرام سے گونج اٹھی تھیں، مگر قریش کی قیادت نے فوراً اعلان کردیا کہ مقتولین کا ماتم نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ قریش کے تمام معروف سردار بدر کے میدان میں قتل ہوچکے تھے۔ اس لئے اب مکہ کا قائد بنوامیہ کا سردار ابوسفیان بن حرب تھا۔ خالد بن ولید، صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابی جہل اور عمروبن عاص اس کے مشیر اور دست وبازو تھے۔ ابوسفیان نے نہ صرف آہ وبکا سے منع کیا تھا، بلکہ نوجوانوں کی ڈیوٹی لگا دی تھی کہ وہ لوگوں پر نظر رکھیں اور کسی کو بلند آواز سے رونے نہ دیں۔
اس کا اپنا بیٹا حنظلہ، اس کا خسر عتبہ، سالا ولید اور بہت سے دیگر رشتہ دار بدر میں لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اس نے خانۂ کعبہ میں جا کر قسم کھائی کہ وہ جب تک مقتولین کا بدلہ نہ لے لے سر میں تیل نہیں لگائے گا، نہ ہی غسل کرے گا۔ شعرا نے مقتولین کے درد بھرے پرتاثیر مرثیے لکھے۔ ان مرثیوں کا رنگ عجیب ہے۔ مرثیوں میں میدان جنگ میں ڈھیر ہوجانے والے سورماؤں کی جدائی کا درد بھی نمایاں ہے اور قریش کی عظمت کے خاک میں مل جانے کا ماتم بھی عیاں ہے۔ ایک ایک شعر میں جذبۂ انتقام ابھارنے اور نفرت کی آتش بھڑکانے کا بھرپور اہتمام کیا گیا تھا۔
قریش مکہ کے تقریباً ساڑھے آٹھ سو جنگجو شکست کے بعد میدانِ جنگ سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ اپنی کثرت کے زعم اور قوت کے پندار کا حشر دیکھنے کے بعد اب انھیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس مُنہ سے گھروں کو واپس لوٹیں۔ اہلِ مکہ اپنی فوجوں کی شکست سے نہ صرف بے خبر تھے، بلکہ ان کے نزدیک ان کی فتح یقینی تھی۔ جب پہلا شخص شکست کی خبر لے کر مکہ پہنچا تو کسی نے بھی اس کی بات کا یقین نہ کیا، بلکہ لوگوں نے اسے مجنوں قرار دیا۔
میدانِ بدر سے مکہ پہنچنے والا یہ سب سے پہلا شخص حیسمان بن ایاس خزاعی تھا۔ اہلِ مکہ اسے دیکھتے ہی اس کے گرد جمع ہوگئے اور اس سے جنگ کا حال پوچھنے لگے۔ شدت غم سے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ اس نے کہا: ’’بدر کے میدان میں ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی، ہمارے بہت سے بہادر جنگجو دشمن کی تلواروں کا لقمہ بن گئے۔ میدان جنگ میں ہر جانب موت رقصاں تھی، مکہ کے سردار اور فوج کے قائدین زندگی کی بازی ہارگئے‘‘۔ پھر وہ مقتولین کے نام گنوانے لگا۔
حاضرین سکتے میں آگئے اور ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مکہ میں جنگ سے پیچھے رہ جانے والا سردار صفوان بن امیہ غصے میں دھاڑا اور کہا: ’’حیسمان کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سے ذرا میرے بارے میں پوچھو کہ میں کہاں ہوں‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’صفوان بن امیہ وہ سامنے بیٹھا ہے اور اس کے بھائی اور باپ کو مَیں نے قتل ہوتے دیکھا ہے۔‘‘
حیسمان خزاعی کی باتیں سن کر کچھ لوگ متذبذب تھے، مگر اکثریت نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ اسی لمحے بدر سے آنے والا دوسرا فرد مکہ میں داخل ہوا۔ یہ خاندانِ بنوہاشم کا چشم وچراغ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب تھا۔ بنوہاشم میں ابولہب کے بعد یہی شخص اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس نے بھی حیسمان کی حرف بہ حرف تائید کی تو اہلِ مکہ کے لئے شکست کی خبر پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
ابولہب اپنی اسلام دشمنی کے باوجود قریش کے ساتھ جنگ کے لئے نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیجا تھا۔ عاص اس کا مقروض تھا۔ اس نے اس سے کہا کہ وہ اس کی جانب سے جنگ پر جائے تو یہ قرض معاف کردیا جائے گا۔ وہ مکہ میں جنگ کے نتائج کا بے قراری سے انتظار کررہا تھا۔ چاہِ زمزم کے قریب بیٹھا قریش کی فتح کے خواب دیکھ رہا تھا کہ کسی نے اسے بتایا کہ تمہارا بھتیجا ابوسفیان بن حارث میدانِ جنگ سے آگیا ہے۔
اس نے بلند آواز سے ابوسفیان کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا: ’’بھتیجے بتاؤ جنگ کی کیا خبر ہے؟‘‘ ابوسفیان بن حارث نے کہا: ’’جنگ کی کیا خبر پوچھتے ہو؟ بات کہنے کی ہے نہ سننے کی۔ خدا کی قسم دشمن نے ہمیں گاجر مولی کی طرح کاٹا اور جنگ کے بعد ہمارے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر قیدی بنالیا۔ ہم نے اپنے دشمنوں کے علاوہ ایک عجیب مخلوق دیکھی۔ سرخ وسفید رنگ کے نوجوان ابلق گھوڑوں پر سوار زمین وآسمان کے درمیان معلق نظر آ رہے تھے۔۔۔‘‘
ابوسفیان کی باتوں نے ابولہب کی کمر توڑ دی۔ اس کے گرد عام لوگ جو جمع ہوگئے تھے، وہ بھی حوصلے ہار بیٹھے۔ زمزم کے قریب بنے ہوئے حجروں میں سے ایک حجرے میں ابو رافع بیٹھے نیزے بنارہے تھے۔ یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ جسمانی لحاظ سے بھی کمزور تھے اور سماجی لحاظ سے بھی ان کا کوئی مرتبہ نہیں تھا۔ اسلام قبول کرچکے تھے، مگر مکہ کے پرآشوب حالات کی وجہ سے اپنے اسلام کا اظہار نہ کرتے تھے۔ اس وقت وہ حضرت عباس کی پناہ میں تھے اور انہی کے لئے نیزے بناتے اور انہیں سیدھا کرتے تھے۔ ابو سفیان کی آواز سے جب انھوں نے عجیب مخلوق کا ذکر سنا تو حجرے کے دروازے کا پردہ ہٹا کر کہا: ’’خدا کی قسم! یہ عجیب مخلوق اللہ کے فرشتے تھے‘‘۔
ابو رافع خود اس واقعہ کے راوی ہیں کہ جونہی ابولہب نے ان کی بات سنی وہ مشتعل ہوکر ان پر جھپٹا، انھیں زمین پر گرا کر ان کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور انہیں بدترین ظلم کا نشانہ بنایا۔ حضرت عباس کی بیوی ام الفضلؓ نے یہ منظر دیکھا تو وہ بھاگتی ہوئی آئیں، ابولہب کے سرپر ایک چوب دے ماری اور اسے سخت سست کہتے ہوئے فرمایا: ’’اس کا سرپرست موجود نہیں، اس لیے تم اس پر ظلم ڈھارہے ہو‘‘۔ ابولہب جنگ کے نتائج سے پہلے ہی حوصلہ ہار بیٹھا تھا۔ ام الفضلؓ کی جرأت نے اسے اور بھی رسوا کردیا۔
اس واقعہ کے بعد وہ چیچک اور طاعون کی ایسی بیماری میں مبتلا ہوا، جس میں اس کے اہل وعیال نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ساتویں دن ذلت ورسوائی کے ساتھ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر واصل جہنم ہوا۔ اسلام اور نبئ مہربانؐ کے اس بدترین دشمن کا یہ انجام بھی ایک لحاظ سے فرقان ہے۔ آج بھی چراغِ مصطفوی سے شرار بولہبی ستیزہ کار ہے، مگر اے اہلِ ایمان! جان لیجئے عشق ِ مصطفی کے
کچھ تقاضے ہیں!
تازہ میرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی! عقل تمام بولہب!
(تفصیلات البدایۃ والنھایۃ، امام ابن کثیر، المجلد الاول، مطبوعہ دارِ ابن حزم، بیروت، الطبعۃالاولیٰ 2005ء، ص639تا642 میں دیکھی جاسکتی ہیں)۔
حافظ محمد ادریس
0 Comments