شکلات میں امید کے چراغ

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

شکلات میں امید کے چراغ

آج امت مسلمہ پر بڑا کڑا وقت آگیا ہے۔ ہر جانب خونِ مسلم کی ارزانی ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی کا فقدان ہے اور ہر شخص بد دلی و مایوسی کا شکار ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوگئی ہے اور یہ مٹھی بھر اشرافیہ مال مست اور نشے میں مخمور ہے۔ عام آدمی مایوس اور پریشان ہے۔ ایسے میں بندۂ مومن کے لیے رسولِ رحمت کی حیاتِ طیبہ کی روشنی تاریک ماحول کو منور کرسکتی ہے۔ آپؐ پر مشکلات کے پہاڑ توڑے گئے مگر آپؐ کبھی بد دل اور مایوس نہ ہوئے۔ یہ مضمون آج کے پر آشوب حالات میں اہل ایمان کے لیے ہمت و حوصلے کا باعث بنتا ہے۔

دنیا میں ہر عظیم مقصدتک پہنچنا عظیم قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے ہی میں ممکن ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو فریضہ سونپا گیا تھا وہ بہت مشکل تھا۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنا اور باطل کے ہر جھنڈے کو سرنگو ں کردینا، اللہ کی شریعت کا نفاذ اور ادیانِ باطلہ کو شکست سے دوچار کردینا بعثتِ رسولؐ کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ اس مقصد کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن پاک میں تین مرتبہ ایک ہی انداز اور یکساں الفاظ میں اسے دھرایا گیا ہے۔ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنََ۔ ( التوبہ:۳۳) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(سورۂ الفتح آیت نمبر۲۸ اور سورۂ الصف آیت نمبر۹ بھی اسی موضوع پر ہیں)۔

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے مطابق مکہ اور اس کے گرد ونواح میں دعوت دین کا کام شروع کیا تو جاہلی معاشرے میں ہل چل مچ گئی، جیسے آپ نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔ آپؐ کی مخالفت میں قریش کے تمام سردار اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور تو اور آپؐ کا حقیقی چچا ابولہب ان سب سے آگے آگے تھا۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے کا ہرحربہ اختیار کرتا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اپنے مکان کی چھت سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں غلاظت پھینکنے سے بھی باز نہ آتا۔کبھی کبھار تو ہنڈیا پک رہی ہوتی تو بدبخت اوپر سے غلاظت پھینک دیتا۔

ابولہب کے علاوہ آپ کے دیگر پڑوسی بھی اسی قماش کے لوگ تھے، مثلاً عقبہ بن ابی معیط، حَکم بن عاص اور عدی بن حمراء۔ ان سب کی حرکات بھی ابولہب کی طرح ہی کی تھیں۔ یہ کس قدر اذیت ناک بات تھی اس کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی ہمت ہاری اورنہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات کہی جو آپؐ کے شایان شان نہ ہو۔ آپؐ اتنا فرماتے:’’ اے بنو عبدمناف تم کیسے ہمسائے ہو، کیا ہمسائیگی اسی کو کہتے ہیں؟‘‘ ۔ (تفہیم القرآن، ج۶، دیباچہ سورۂ اللہب، ص۱۱۱۔ بحوالہ بیہقی، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ابن عساکر، ابن ہشام)

حضرت خدیجہؓ اور جناب ابوطالب سن۱۰نبوی میں وفات پاگئے۔ اس سال کو عام الحزن کہا جاتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں شخصیات سے بے پناہ محبت تھی اور دونوں نے آپؐ کے مشن میں آپؐ کا ساتھ نبھانے کا حق بھی بطریق احسن ادا کیا۔ غم کے باوجود آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم ہمت ہار کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ مکہ سے ذرا فاصلے پر عرب کے دوسرے بڑے شہر طائف کا دعوتی سفر اختیار کیا۔ طائف میں آپؐ کی دعوت ووعظ کو سن کر وہاں کے ظالم لوگوں نے آپؐ پر ہر جانب سے پتھر برسانا شروع کردیے۔

یہ واقعہ بہت مشہور ہے جسے ہر مسلمان جانتا ہے۔ حضرت زید بن حارثہؓ جو رفیق سفر تھے، آپؐ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر شہر سے باہر لائے۔ آپؐ کو بری طرح زخمی کیا گیا تھا اور آپؐ بے ہوش بھی ہوگئے تھے۔ حضرت زید بن حارثہؓ نے چشمے کے پانی سے آپؐ پر چھینٹے ڈالے تو آپؐ ہوش میں آئے۔ وادئ نخلہ کی وہ رات بڑی یادگار تھی جب اچانک آپؐ کے پاس حضرت جبریل اور پہاڑوں کا نگران فرشتہ حاضر ہوئے اور آپ کو سلام عرض کرنے کے بعد اجازت چاہی کہ اہلِ طائف کو اس ظلم وسفاکی کی پاداش میں دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے، مگر آپ نے فرمایا: ’’نہیں ہرگز نہیں۔ میں ان لوگوں کی تباہی کے لیے کیوں دعا کروں اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے تو کیا ہوا؟ امید ہے کہ ان کی آیندہ نسلیں ضرور ایک اللہ پر ایمان لے آئیں گی۔‘‘ (تاریخ طبری،ج۲، ص۳۴۵)

اس رات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا مانگی وہ بھی بہت عظیم ہے: اَللّٰہُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ بَثِّیْ وَحُزْنِیْ وَضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ ۔ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّیْ اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ اِلٰی بَعِیدٍ ۔۔۔۔۔۔وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِکَ۔ الٰہی میں اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں کی تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں۔ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، درماندہ عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے۔ مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے، کیا بیگانہ ترش رُوکے یا اس دشمن کے جو میرے معاملات پر قابو رکھتا ہے، لیکن مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں، کیونکہ تیری عافیت میرے لیے زیادہ وسیع ہے، میں تیری ذات کے نور کی پناہ چاہتا ہوں، جس سے سب تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دنیا ودین کے کام اس سے ٹھیک ہوجاتے ہیں، میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر اترے یا تیری نارضامندی مجھ پر وارد ہو۔ مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت، مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے۔

(صحیح مسلم، عن عائشۃؓ، کتاب الجہاد والسیر،حدیث۱۷۹۵، رحمۃ للعالمینؐ،ج۱،ص۷۴، از قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری، مطبوعہ ادارہ، معارف اسلامی،لاہور

حافظ محمد ادریس

Post a Comment

0 Comments