میرا قبول اسلام ،کابل سے واپسی کے ڈھائی سال بعد کا واقعہ ہے یہ ڈھائی سال میں نے اسلام کے مطالعے میں گزارے ،جب میں نے خود کو اس عظیم مسلم برادری میں شامل ہونے کے لیے بالکل تیار پایا تو عمران خان کو اپنے فیصلے سے مطلع کیا ،انہوں نے ایک بار پھر غور کرنے کے لیے کہا ،میں نے کہا کہ کہ ڈھائی سال سوچتی رہی ہوں اب صرف عمل کرنا ہے یہ میرا قطعی فیصلہ ہے۔میں اس کے لیے خاص تقریب کے انعقاد یا پر جوش تقریر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتی ،بس عمران خان اور ہمارے تین دوست موجود تھے۔
جہاں تک اثرات یا میری زندگی کے معمولات ،خاندانی تعلقات اور حلقہ احباب کے رد عمل کا تعلق ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ میں نے کلبوں میں جانا ، شطرنج کھیلنا اور مخلوط محفلوں میں جانابالکل چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح جو احباب بچھڑنا تھے بچھڑ چکے۔ اب میں ان تمام حرکتوں سے اجتناب کرتی ہوں جنہیں گناہ کہا جاتا ہے۔میں افغانی عورتوں کی طرح شٹل برقع نہیں پہنتی لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق حجاب پہنتی ہوں اس میں بھی چہرے اور ہاتھوں کے سوا سارا جسم ڈھانپا ہوتا ہے۔جو لوگ مجھے بطور یو آنے رڈلے ، بے حد عزیز جانتے تھے۔ وہ مجھے بطور مریم دیکھ کر شش و پنج میں پڑ جاتے ہی اور کچھ کھچے کھچے رہتے ہیں۔ اس سے انہیں اسلام کے بارے میں ایک ناقابل فراموش پیغام تو مل گیا۔
مجھے عیسائی بنیاد پرستوں کی طرف سے قتل کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ میں نے ان کے مذہب سے غداری کی ہے یہ ان کی تعبیر ہے اور میری تعبیر یہ ہے کہ میں نے اپنے مطالعے اور اپنے ضمیر کے مطابق ایک فیصلہ کیا ہے جس سے مجھے بے پناہ طمانیت حال ملی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس سے پہلے میری زندگی کا کوئی نصب العین نہیں تھا اب مجھے جینے کا ایک واضح مقصد نظر آگیا ہے زندگی بہت خوبصورت دکھائی دے رہی ہے۔البتہ ایک پچھتاوا ہے کہ میں نے اسلام کو سمجھنے میں اتنی دیر کیوں کردی پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نظر کرم کر ہی دی اب باقی زندگی اس کے احکام کے مطابق گزاروں گی۔ میں اب غیر مسلموں میں غیر محسوس طریقے سے اسلام کی روشنی پھیلا رہی ہوں۔۔۔۔
" کتاب "طالبان کی قید میں " سے اقتباس
Yvonne Ridley's Conversion to Islam
0 Comments