جس طرح قرآن مجید میں نماز کا کثرت سے ذکر کیاگیا ہے۔ اس طرح احادیث مبارکہ کا ذخیرہ نماز کی فضیلت، اہمیت اور اسکے متعلقہ مسائل کے ذکر سے معمور ہے۔ حدیثِ پاک کے کسی بھی مجموعے کا مطالعہ کیجئے۔کتاب الصلوٰة، ابواب الصلوٰة کے زیر عنوان نماز ہی کا ذکر ہے۔ احادیث مبارکہ میں نماز ہی کو مرکزِ عبادات کادرجہ حاصل ہے۔
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے روز لوگوں سے انکے اعمال میں سے سب سے اوّل حساب نماز کا لیا جائیگا۔ (سنن ابوداﺅد) یہی حدیث مبارکہ الفاظ کے معمولی اختلاف کیساتھ جامع الترمذی میں بھی موجود ہے جبکہ سنن نسائی میں اس میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں۔
٭سو اگر نماز کا معاملہ درست ٹھہرا تو وہ بندہ فلاح ونجات پاگیا اور یہی معاملہ بگڑگیا تو وہ نامراد اور خسارہ پانے والا ہوا۔ (سنن نسائی) امتحان کی پہلی منزل میں کامیابی نصیب ہوجائے تو یہ اگلی منزلوں میں بھی نجات کی توید ثابت ہوگی اور اگر خدانخواستہ پہلے مرحلے ہی میں لغزش سامنے آجائے تو اسکے اثرات آئندہ کیلئے بھی بڑے ضرر رساں اور مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔
٭ حضرت علی کر م اللہ وجہہ¾ الکریم فرماتے ہیں۔ نبی کریم نے وصال فرماتے ہوئے جو آخری کلام فرمایا وہ تھا۔ الصلوٰة، الصلوٰة اور یہ کہ تم اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ (سنن ابی داﺅد) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک فریضہءصلوٰة کی کتنی اہمیت ہے کہ آپ نے دنیا سے جاتے ہوئے بھی اسکی تاکید بلکہ تاکید بالائے تاکید کو انتہائی ضروری سمجھا ۔ تعلق بااللہ کی اس استواری کیساتھ آپ نے اس وقت معاشرے کے سب سے کمزور اور زےردست طبقے یعنی ”غلاموں“کی خیر خواہی کا پیغام بھی ارشاد فرمایا ۔ یہ دین اسلام کی جامعیت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ جہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو اہمیت حاصل ہے اور توازن اور اعتدال کا پیغام ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔
٭حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔”بلاشبہ رسول اللہ (بڑے انہماک اور استواری سے) نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپکے دونوں قدم زخمی ہوجاتے۔ آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ آپ یہ کچھ کر رہے ہیں حالانکہ آپ کیلئے بخشش ہی کہ آپ پہلے بھی گناہوں سے محفوظ رہے ہیںاور آئندہ بھی رہینگے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:۔ ”کیا میں (اپنے رب تعالیٰ کا ) شکر گزار بندہ نہ بنوں“۔ (بخاری) ٭حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا: ”نماز دین کا ستون ہے“۔ (شعب الایمان) ستون پر ہی کوئی عمارت استوار ہوتی ہے اور دین کی عمارت کا مرکزی ستون نماز ہے۔ یہ حدیث ہمیں اس امر کا احساس دلاتی ہے کہ نماز محض ذاتی مسئلہ یا انفرادی عمل نہیں ہے بلکہ اسلامی معاشرے کے حقیقی قیام اور بقا کیلئے اس فریضہ صلوٰة کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور یہ اس کا نشان امتیاز ہے۔
0 Comments