جو شخص برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اسکی طاقت نہ ہوتو دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘حدیثِ رسول ؐ
بنی نوع انسان کی ہدایت کا فریضہ سرانجام دینے کیلئے اللہ عزوجل نے وقتاً فوقتاً انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے ساتھ ہی دین کی تکمیل کردی گئی لہٰذا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ تمام امتیوں کیلئے بالعموم اور علمائے امت کیلئے بالخصوص عین اصول دین قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائے، اچھی بات کا حکم دے اور برائی سے منع فرمائے‘‘۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض کفایہ ہے اور ایک جماعت کا قیام بھی اس پر کفایت کرتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ــ’’جو شخص برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اسکی طاقت نہ ہوتو دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل) امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے کوتاہی برتنے پر احادیث میں سخت وعید یں سنائی گئی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جوکوئی قوم گناہ کا کام کرے اور ان میں روکنے کے قابل کوئی شخص ہو لیکن وہ نہ روکے تو قریب ہے کہ اللہ عزوجل ان سب کو اپنے عذاب میں مبتلا کردے‘‘ (سنن ابی دائود)۔
نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنے کیلئے نیت کا اخلاص ضروری ہے جوکہ ریاکاری اور دکھاوے سے پاک ہونے کے علاوہ شہرت طلبی جیسی برائیوں سے بھی مبرا ہو۔ اسی طرح بعض علماء اس کیلئے عادل یعنی باعمل ہونے کی ہی شرط لگاتے ہیں اسکی وجہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ،ترجمہ: ’’ کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے‘‘ ۔(سورہ الصف) اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہے ’’کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو‘‘۔ تاہم بعض علماء کے نزدیک عادل ہونا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے باب میں شرط نہیں کیونکہ ہر شخص پر دوباتیں لازم ہیں پہلی برائی سے خود بچنا اور دوسرا برائی سے روکنا۔ اور فاسق شخص بھی کم از کم برائی سے روک تو سکتا ہے اگرچہ برائی سے خود نہ بچ سکے شاید روکنے کے ہی سبب اسے برائی سے بچنے کی توفیق مل جائے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ احتساب کے 4 درجے ہیں (1) برائی سے آگاہ کرنا (2)وعظ کرنا (3)سخت بات کہنا (4)سختی سے روکنا۔ امراء و سلاطین کو صرف آگاہ کرنا اور وعظ و نصیحت کرنا چاہیے کیونکہ ان سے سخت بات کرنا یا سختی سے روکنا فتنہ برپا ہونے کا سبب ہے۔ جسکی وجہ سے ایسی شرانگیزی ہو گی جو ان کی اپنائی ہوئی برائی سے بھی زیادہ ہوگی۔ ہاں اگر معلوم ہو کہ سخت گفتگو فائدہ دے گی اور شرانگیزی کا باعث نہ ہوگی تو پھر کوئی حرج نہیں۔
تاجداررسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان دلالت کرتا ہے کہ ’’شہدا ء میں سب سے افضل حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ہیں پھر وہ شخص ہے جس نے حاکم کو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا حکم دیا اور اسکی نافرمانی سے منع کیا پس اس وجہ سے حاکم نے اسے قتل کردیا۔‘‘ ایک اور حدیث میں روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے‘‘۔ اگر کلمہ حق کہنے والا اس وجہ سے قتل کردیا جائے توشہید ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والے کو چاہیے کہ وہ عالم، متقی، حسن اخلاق کا پیکر، نرم طبیعت کا مالک اور ترش روئی سے پرہیز کرنے والا ہو۔
اسے احتساب کی حدود کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ وہ شرعی حدود و قیود کے اندر رہے حسن اخلاق کے اصولوں پر کاربند رہے اور جہلاء کی جانب سے دی گئی مصیبتیں برداشت کرنے میں خندہ پیشانی سے کام لے۔ یہی سنت نبویؐ ہے کیونکہ حسن اخلاق کے پیکر رحمۃ اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کی راہ میں اخلاقی اصولوں کی وہ تاریخ رقم کی ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیگی۔
0 Comments