حج بیت اﷲ سے غفلت کا انجام.......The Significance of Hajj

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

حج بیت اﷲ سے غفلت کا انجام.......The Significance of Hajj



اللہ نے اپنے فضلِ خاص سے اپنے جس بندے کو حج کی استطاعت سے نوازا ہے اس بندے کی شانِ بندگی یہی ہے کہ وہ اوّلین فرصت میں حج کی سعادت حاصل کرے اور حجِ بیت اللہ میں ہرگز سستی‘ غفلت‘ لاپروائی اور ٹال مٹول نہ کرے۔ جس قدر جلد ممکن ہو بے تابانہ اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے پہنچے۔ اس بندے سے زیادہ محروم اور بدنصیب اور کون ہوگا جس کو اللہ ہر طرح کی سہولت فراہم کرکے اپنے گھر بلائے اور وہ بدنصیب اللہ کے گھر جانے میں سستی اور کوتاہی کرے اور جانے کا ارادہ ہی نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے بندے کے اس غیر مومنانہ رویّے کو کفر سے تعبیر کیا ہے… اور سخت ترین وعید سناتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ سارے جہاں والوں سے بے نیاز ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے 

 ترجمہ  ’’اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو شخص استطاعت رکھتا ہو وہ اس کے گھر کا حج کرے، اور جو ناشکری کرے گا تو وہ جان لے کہ اللہ سارے جہان والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘  آل عمران 3:97  

کفر کے معنی ہیں ناشکری کرنا۔ ناشکری وہ بدترین اخلاقی بیماری ہے جو انسان کو انسانیت کے مرتبے سے گرا دیتی ہے اور اللہ کے عذابِ شدید کا مستحق بناتی ہے۔ اس کے مقابلے میں شکرگزاری‘ ایمان کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اللہ کی نعمتوں کے احساس سے سرشار ہوکر جس زبان پر حمد و شکر کے الفاظ بے اختیار جاری ہوتے ہیں‘ اس زبان سے ہی اھدنا الصراط المستقیم کی درخواست امڈتی ہے اور جواب میں اس کو کتابِ الٰہی سے ہدایت کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ جب بندہ اللہ کی نعمتوں پر شکرکے جذبات سے سرشار ہوکر زبان و عمل سے شکر کا اظہارکرتا ہے‘ تو فیضانِ رحمت کی بارش اور تیز ہوجاتی ہے، اور جب بندہ سب کچھ پاکر بے حسی اور ناشکری کا رویہ اختیار کرتا ہے تو اللہ کا غضب بھڑکتا ہے اور اسے عذابِ شدید کی وعید سنائی جاتی ہے۔
بندۂ مومن کے لیے اس سے بڑی خوش نصیبی اورکیا ہوسکتی ہے کہ رب رحیم اپنے فضل و کرم سے اسے صحت سے نوازے اور ہر طرح کی آسائش اور سہولت مہیا کرکے اس کو اپنے گھر کی زیارت کے لیے بلائے، لیکن جو بندہ یہ سب کچھ پانے کے باوجود ناشکری کی روش اختیار کرے اور اپنے رب کے بلاوے کو نظرانداز کردینے کا جرم کرے اس سے زیادہ محروم القسمت اور کون ہوگا! ایسے شخص کو اللہ نے اپنی بے نیازی کی وارننگ دی ہے اور اس سے زیادہ لرزہ خیز وارننگ اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ بندے کا رب اس سے بے نیازی کا اظہار فرمائے۔ جس سے اللہ بے نیاز ہوجائے اس کا کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی بنیاد پر تارکینِ حج کو ایسے انجام سے ڈرایا ہے کہ اگر روح میں ذرا بھی بیداری ہو اور ایمان میں کوئی بھی رمق باقی ہو ‘ تو آدمی پر لرزہ طاری ہوجائے۔
حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو سفرِ حج کا ضروری سامان اور سواری میسر ہو‘ جو اس کو بیت اللہ تک پہنچاسکے اور وہ پھر بھی حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیْتِ مَنِ اسْتَطَائَ اِلَیْہِ سَبیْلاً ‘‘ اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو بھی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کے گھر کا حج کرے۔‘‘
راوی نے پوری آیت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے آیت کا پہلا حصہ پڑھا ہے۔ اس لیے کہ وہ وعید جس سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے استدلال کیا ہے، وہ تو آیت کا یہ آخری حصہ ہے:وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَo آل عمران3:97  
 ترجمہ ’’ اور جس نے ناشکری کی تو اللہ سارے جہان والوں سے بے نیاز ہے۔ 
یعنی اللہ اس سے بے نیاز ہے کہ وہ کس حال میں مرتے ہیں اور کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ اس نے تو اپنے کرم سے سب کچھ مہیا کردیا پھر بھی اگر کوئی بندۂ شقی بدترین انجام ہی کا خواہاں ہے تو اللہ سارے عالم سے بے نیاز ہے، ساری دنیا کے انسان مل کر اُس کی بندگی میں ڈوب جائیں تب بھی اُس کی ذات کو شمہ بھر نفع نہیں پہنچ سکتا، اور سارے انسان مل کر نافرمانی اور برائیوں میں لت پت ہوجائیں تب بھی اُس کی ذات کو ذرہ بھر نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ وہ مستغنی اور بے نیاز ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید کا مفہوم یہ ہے کہ ایک تارکِ حج اگر حج کیے بغیر مرجاتا ہے تو حج کیے بغیر مرجانے میں اور یہودی اور نصرانی ہوکر مرجانے میں کوئی فرق نہیں ہے۔

قرآن میں تارکینِ صلوٰۃ کو مشرکین سے تشبیہ دی ہے اور اس حدیث میں تارکینِ حج کے عمل کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود ونصاریٰ سے تشبیہ دی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ مشرکین مکہ حج تو ادا کرتے تھے لیکن نماز کے تارک تھے اور یہود و نصاریٰ نماز تو پڑھتے تھے لیکن حج کے تارک تھے۔ اس لیے ترکِ صلوٰۃ کے رویّے کو مشرکین کا رویہ بتایا گیا ہے اور ترکِ حج کے رویّے کو یہود و نصاریٰ کا رویہ قرار دیا گیا ہے۔ اور ایک باشعور بندے کو لرزا دینے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکِ صلوٰۃ اور ترکِ حج کو اُن لوگوں کا رویہ قرار دیا ہے جن کا جرم ناقابلِ معافی ہے، جن کی گمراہی پر اللہ کی کتاب شاہد ہے اور جن کو اللہ نے اپنے غضب میں گرفتار قرار دیا ہے۔
  
محمد یوسف اصلاحی

The Significance of Hajj

Post a Comment

0 Comments