بچوں کی پرورش کے اسلامی آداب......Necessary Tips for Raising Children Islamically

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

بچوں کی پرورش کے اسلامی آداب......Necessary Tips for Raising Children Islamically


٭ ولادت کے وقت ولادت والی عورت کے پاس آیۃ الکرسی، سورہ الفلق اور سورہ الناس پڑھ کر دم کیجیے۔
٭ ولادت کے بعد نہلا دھلا کر دائیں کان میں اذان اور بائیںکان میں اقامت کہیے۔ جب حضرت حسینؓ کی ولادت ہوئی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں اذان و اقامت فرمائی۔ (طبرانی)
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جس کے یہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے تو بچہ ’’ام الصبیان‘‘ سے محفوظ رہے گا۔ (ابویعلی ابن سنی)
٭ بچے کے لیے اچھا سا نام تجویز کرنے کے لیے کہیے جو یا تو پیغمبروں کے نام پر ہو یا خدا کے نام کے ساتھ پہلے عبد لگا کر ترتیب دیا گیا ہو جیسے عبداللہ، عبدالرحمن وغیرہ۔
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تمہیں اپنے ناموں سے پکارا جائے گا، اس لیے بہتر نام رکھو (ابودائود)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خدا کو تمہارے ناموں میںسے عبداللہ اور عبدالرحمن سب سے زیادہ پسند ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ انبیاء کے ناموں پر نام رکھا کرو۔
٭ ساتویں دن عقیقہ کیجیے۔ لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کیجیے، لیکن لڑکے کی طرف سے دو بکرے کرنا ضروری نہیں ہے، ایک بکرا بھی کرسکتے ہیں۔ اور بچے کے بال منڈوا کر اس کے برابر سونا یا چاندی خیرات کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ساتویں دن بچے کا نام تجویز کیا جائے اور اس کے بال وغیرہ اتروا کر اس کی طرف سے عقیقہ کیا جائے۔ (ترمذی)
٭ ساتویں دن ختنہ بھی کرا دیجیے، لیکن کسی وجہ سے نہ کرائیں تو سات سال کی عمر کے اندر اندر ضرور کرا دیں۔ ختنہ اسلامی شعار ہے۔
٭ جب بچہ بولنے لگے تو سب سے پہلے اس کو پہلا کلمہ ’’لاالہٰ الا اللہ‘‘ سکھائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو اس کو لاالہٰ الا اللہ سکھا دو۔ پھر پروا مت کرو کہ کب مرے، اور جب دودھ کے دانت گر جائیں تو نماز کا حکم دو۔ (نسائی)
٭ چھوٹے بچوں پر شفقت کا ہاتھ پھیرئیے، بچوں کو گود میں لیجیے، پیار کیجیے اور ان کے ساتھ خوش طبعی کا سلوک کیجیے، ہر وقت تند خو اور سخت گیر حاکم نہ بنے رہیے، اس طرزِ عمل سے بچوں کے دل میں والدین کے لیے والہانہ جذبۂ محبت پیدا نہیں ہوتا، ان کے اندر خود اعتمادی پیدا نہیں ہوتی اور ان کی فطری نشوونما پر بھی خوشگوار اثر نہیں پڑتا۔
٭ اولاد کو پاکیزہ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لیے اپنی کوششیں وقف کر دیجیے اور اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیجیے۔ یہ آپ کی دینی ذمہ داری بھی ہے، اولاد کے ساتھ عظیم احسان بھی اور اپنی ذات کے ساتھ سب سے بڑی بھلائی بھی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے (مشکوٰۃ)۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جب انسان مرجاتاہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتاہے، مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے: ایک یہ کہ وہ صدقہ جاریہ کر جائے، دوسرایہ کہ وہ ایسا علم چھوڑ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، تیسرے صالح اولاد جو باپ کے لیے دعا کرتی رہے۔ (مسلم)
٭ بچے جب سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز سکھائیے، نماز پڑھنے کی تلقین کیجیے اور اپنے ساتھ مسجد لے جاکر شوق پیدا کیجیے۔ اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں اور نماز میںکوتاہی کریں تو انہیں مناسب سزا دیجیے اور قول و عمل سے ان پر واضح کردیجیے کہ نماز کی کوتاہی کو آپ برداشت نہیںکریں گے۔
٭ بچے جب دس سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کردیجیے اور ہر ایک کو الگ الگ چارپائی پر سلائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کی ہوجائے، اور نماز نہ پڑھنے پر ان کو سزا دو، اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کردو۔‘‘
بچوں کو نبیوں کے قصے، صالحین کی کہانیاں اور صحابہ کرامؓکے مجاہدانہ کارنامے ضرور سناتے رہیں۔ تربیت و تہذیب، کردار سازی اور دین سے شغف کے لیے اس کو انتہائی ضروری سمجھیے اور ہزار مصیبتوں کے باوجود اس کے لیے وقت نکالیے۔ اکثر و بیشتر ان کو قرآن پاک بھی خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنائیے اور موقع موقع سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پُراثر باتیں بھی بتائیے، اور ابتدائی عمر ہی سے ان کے دلوں میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔
کبھی کبھی بچوں کے ہاتھ سے غریبوں کو کچھ کھانا پینا اور پیسے بھی دلوائیے تاکہ بچوں میں غریبوں کے ساتھ حسن سلوک اور سخاوت و خیرات کا جذبہ پیدا ہو… اور کبھی کبھی یہ موقع بھی فراہم کیجیے کہ کھانے پینے کی چیزیں بہن بھائیوں میں خود تقسیم کریں تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کا احساس اور انصاف کی عادت پیدا ہو۔
٭لڑکی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوشی منائے جس طرح لڑکے کی پیدائش پر مناتے ہیں۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں خدا کا عطیہ ہیں اور خدا بہتر جانتا ہے کہ آپ کے حق میں لڑکی اچھی ہے یا لڑکا۔ لڑکی کی پیدائش پر ناک بھوں چڑھانا اور دل شکستہ ہونا اطاعت و شعارِ مومن کے لیے کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔ یہ ناشکری بھی ہے اور خدائے علیم و کریم کی توہین بھی۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ ’’جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں: اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے، جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد شاملِ حال رہے گی۔‘‘ (طبرانی)
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر دفن نہیں کی اور نہ ہی اس کو حقیر جانا اور نہ لڑکے کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی اور زیادہ سمجھا تو ایسے آدمی کو خدا جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ (ابو دائود)
٭ ان تمام تدبیروں کے ساتھ ساتھ نہایت سوز اور دل کی لگن کے ساتھ اولاد کے حق میں دعا بھی کرتے رہیے۔ خدائے رحمن و رحیم سے توقع ہے کہ وہ والدین کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی پُرسوز دعائیں ضائع نہ فرمائے گا۔
[انتخاب از ’’آداب زندگی]
مولانا محمد یوسف اصلاحی

Necessary Tips for Raising Children Islamically

Post a Comment

0 Comments