بیر، کیلا، انجیر، زیتون، انار اور دیگر فواکہات کا قرآن کریم میں تذکرہ پڑھ کر مومن کا دل مسرور ہوتا ہے۔ لیکن کھجور کے پھل کا تصور شیرینی اور خوشبو کی ایک عجیب دنیا میں لے جاتا ہے۔ عربی زبان میں نخل سے مراد عموماً کھجور ہی ہوتی ہے۔ نخلستان کھجوروں کے باغ کو کہتے ہیں۔ لیکن صحرا میں وہ قطعہ ارضی جہاں پانی دستیاب ہو، سبزہ بھی ہو اور کھجوروں کا جنگل اُگا ہو، اُسے نخلستان کہتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کوہِ طور پر جہاں حضرت موسیٰ ؑ کو انوار الٰہی دکھائی دیے تھے ان کا ظہور بھی کھجور کے درخت سے ہوا تھا۔
ماضی کے جھروکے سے دیکھیں تو اہلِ عرب کی روایتی مہمان نوازی کی ابتدا کھجور اور عربی کافی کی ایک چھوٹی پیالی سے ہوتی آئی ہے۔ ہلکی آنچ پر نیم پخت لوبیا کے دانوں کی قلیل مقدار بھی اس تواضع میں شامل ہوتی ہے۔ صاحبِ حیثیت شیوخ کے ہاں کھجور کی مختلف انواع بھی دستر خوان کی زینت بنتی ہیں، ایسے موقع پر سبز الائچی کے دانے (یا پائوڈر) ہلکی خوشبو اور منہ میں ٹھنڈک کا احساس پیدا کردیتے ہیں۔ ہر سعودی میزبان اور خلیج عرب کے خطے میں سب ہی جگہ شرفا مہمان سے محبت اور آئو بھگت میںکھجور کو عزت و احترام کا کنایہ بناتے ہیں۔
سرزمین مملکتِ سعودیہ کھجور کی پیداوار میں ایک ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ دنیا بھر میں اس کو دوسرا درجہ حاصل ہے۔ لیکن یہاں مدینہ طیبہ اس پھل کی پیداوار میں سب سے ممتاز ہے۔ خود سعودی حکومت نے کھجور کی پیداوار میں اپنے تجربے کی بنا پر اسے بہت ترقی دی ہے۔ اس مملکت میں کھجور کی اعلیٰ اور معیاری پیداوار حاصل ہوتی ہے جن میں سب سے ممتاز کھجور عجوہ ہے۔
’’بے شک عجوہ جنت کے پھلوں میں سے ایک ہے۔‘‘(ترمذی۔ حدیث نمبر 2068)
’’جو اپنے دن کی ابتدا عجوہ کی سات کھجوروں سے کرتا ہے وہ زہر اور سحر کے اثرات سے دن بھر محفوظ رہے گا۔‘‘(صحیح مسلم۔ 2047)
مدینہ کے دہقان کی زراعت میں جانوروں کے چارے، برسیم اور سبزیوں کے علاوہ تربوز، انار اور انگور بھی ہیں۔ لیکن ان کی سب سے زیادہ توجہ کھجور پر ہے جو صدیوں سے مدینہ منورہ کی اصل سوغات سمجھی جاتی ہے اور خاصی بڑی مقدار میں برآمد بھی کی جاتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میمنت مہد میں مشہور خرمہ العجوہ، لون اور برنی ہوا کرتی تھیں اور آج کے دن تک کھجور عجوہ ہی مدینہ مبارک کا خاص تحفہ تصور ہوتی ہے۔ دوسری اقسام میں الجدی، حلوہ، شلابی (بغیر گٹھلی کے… جو سخل کے نام سے بھی جانی پہچانی جاتی ہے)، مبروم، البیض، الرابعہ، البرنی، الصفوی ، الروثانہ اور العنبر بہت مشہور ہیں۔ مدینہ طیبہ کی کھجور کی منڈی میں کم و بیش 150 قسم کی کھجوریں بکتی ہیں جن میں العنبر سب سے مہنگی ہے۔ پورے سعودی عرب میں تقریباً 300 اقسام صرف مدینہ طیبہ کے علاقے سے آتی ہیں۔ درحقیقت کھجور مدنی زندگی میں اقتصاد مدینہ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی رہی ہے۔ اس کے بیخ و بن، اس کے تنے اور ڈالیاں تک استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ ان پتّوں سے بہت سی گھریلو چیزیں مثلاً چٹائیاں، دستی پنکھے، چھوٹے ڈبے، چھابے، چنگیریں تیار ہوتی ہیں۔
کھجور کے تنے اور پتّوں سے ایسی اشیا ابتدا میں غلام بنایا کرتے تھے، مگر اب باہر کے ممالک سے افرادی قوت منگوائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ چونکہ پہلے یہود کے ہاں غلام رہ چکے تھے، وہ ہاتھ کے پنکھے بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اہلِ خانہ کے لیے کھجور کی پنکھیاں بناکر لایا کرتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے آقائے دو عالم سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد نبوی میں اپنے ہاتھ سے پنکھا جھلا کرتے تھے۔ (بحوالہ: جستجوئے مدینہ، تالیف: عبدالحمید قادری۔ ص 109۔ لاہور اورینٹل پبلی کیشنز ، دربار مارکیٹ، گنج بخش روڈ لاہور،2007ئ)
سعودی مملکت میں کھجور کے پھل دینے والے درختوں کی تعداد دو کروڑ تیس لاکھ شمار کی گئی ہے۔ اتنی تعداد میں یہ درخت دنیا کے کسی بھی ملک کے اشجارِ تمر سے زیادہ ہیں۔ یوں اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہاں دنیا بھر کی کھجور کی پیداوار کا بیس فیصد فراہم ہوتا ہے۔ بریدہ ریجن مملکت سعودیہ کے درمیان میں ہے۔ بریدہ خلیج عرب اور بحیرہ احمرکے درمیان یکساں فاصلے پر ہے۔ بریدہ کا جڑواں شہر عنیزہ بھی اپنی زرعی پیداوار کے لیے بریدہ ہی کی طرح اہم ہے۔ انتظامی طور پر بریدہ قبیم ریجن کا انتظامی مرکز ہے۔ موسم کے مطابق جب کھجور کا پھل تیار ہوتا ہے تو یہاں 75 روزہ میلہ لگتا ہے جہاں سب سے زیادہ خریداری کھجور ہی کی ہوتی ہے۔ یہاں پڑوسی ممالک سے بھی خریدار آتے ہیں۔ کوئی دو لاکھ ٹن کھجور یہاں بکنے آتی ہے جو تقریباً ڈھائی ارب سعودی ریال کی ہوتی ہے۔
دین پسند طبائع تو عقیدت سے کھجور کی طرف راغب ہوتے ہی ہیں، اس پھل کے طبی اوصاف و فوائد بھی بہت ہیں۔ ہمارے ملک میں طبیب مشرق مولانا حافظ حکیم محمد عبداللہ صاحبؒ جہانیاں والے تو اس پھل پر مستقل کتابچہ لکھ چکے ہیں۔ اس پھل میں رزاقِِ حقیقی نے تغذیہ (nutrition) کی بھرپور خصوصیات رکھ دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اعلیٰ درجہ کی غذائی خوبیوں کا حامل پھل ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ زمین کے قابلِ کاشت رقبہ کا تین فیصد حصہ کھجور کے سایہ میں ہے۔
مملکت سعودیہ کے شہر ہوں یا دیہات… وہاں گلیوں، بازاروں اور گھروں کے اندر بھی کھجور کے درخت کثرت سے اُگانے کا رجحان غالب دکھائی دیتا ہے۔ نہایت اعلیٰ عمارتیں اُس وقت تک اپنے منظر کے حسن کو گہن آلود خیال کی جاتی ہیں جب تک ان میں کھجور کے درخت لہلہاتے دکھائی نہ دیں۔ ان مکانات میں قطعاتِ اراضی کی وسعتوں کی تمام جمالیات پر کھجوروں کے درختوں کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ سعودی شہروں کے کوچے اور بازار بالعموم چوڑے ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے گھروں کے باہر بھی کھجور کے پودے لگاتے ہیں، جن کی مناسب دیکھ بھال ہوتی ہے اور وہ خوب بڑھتے اور پھلتے ہیں۔ ان درختوں کی قطاریں گلی کوچوں کے علاوہ بازاروں، شاہراہوں پر بھی آنے جانے والوں سے حسنِ نظر کا خراج حاصل کرتی ہیں۔ آدمی کا دل اس صنّاعی فطرت سے وقفِ حمد کردگار ہوجاتا ہے۔
کھجور کے درخت کی تکریم کا لحاظ کرتے ہوئے سعودی حکمرانوں نے اپنے قومی جھنڈے پر بھی اس نخلِ حسین کا نقش جمایا ہے۔ اس پھل کے فوائد کے بیان سے دل نہیں بھرتا۔ یہ جزوِ غذا ہو تو انسانی بدن کی حرارتِ عزیزی کے استحکام و دوام سے جسم کی تمام قوتیں نشوونما پاتی ہیں۔ اس طرح ہر عضو اپنے قدرتی افعال کی انجام دہی میں کوتاہی کے عارضے سے محفوظ رہتا ہے۔ سعودی ریاست کے متعدد تحقیقی اداروں نے کھجور کے جسمِ انسانی میں کردار کو واضح کیا ہے اور بعض نے اس کے تہذیبی انعکاسات کو بھی موضوعِ تحقیق بنایا ہے۔ اس کی عمومی خصوصیات کے ساتھ تاریخی پس منظر، اس کی کاشت اور پرورش کے لیے رہنمائی، پیداوار میں اضافے کے لیے مشورے اور اس کے گوناگوں استعمالات کو بھی قلم بند کیا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ مدینہ شریف کی عجوہ کھجور اتنے مؤثر عناصر سے لبریز ہے جو کینسر اور اس کے حوالی امراض کے لیے شافی ثابت ہوئی ہے۔ شاہ سعود یونیورسٹی ریاض میں تحقیق کار دانشوروں نے عجوہ کھجور کے صحت بخش افعال کی نوعیت پر قابلِ قدر کام کیا ہے۔ یہ کھجور کھانے والوں کے جسمانی اعضا میں سوجن پیدا ہونے کا خدشہ نہیں رہتا۔ اس طرح اسپرین اور آئیبو پروفین جیسی زندگی کی محافظ ادویات کے فوائد عجوہ خوروں کو قدرت عطا فرماتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک طرف حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبع نفیس کے لیے اس کا مرغوب ہونا… غلامانِ نبی آخر الزماں کے لیے چاہت سے کھائی جانے والی نعمت ہے، تو قدرتِ حق مزید انعام کے طور پر لوگوں کو صحت و توانائی بھی مہیا کرتی ہے۔ اسی سبب سے تو حج و عمرہ کے لیے حرمین الشریفین کے زائرین واپس جاتے ہوئے عجوہ کے اسٹالز پر ہجوم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پچھلے سال 2013ء کے آخر تک معیاری پیکنگ میں عجوہ کا ایک کلو ایک سو بیس ریال تک بکتا رہا ہے۔ مملکتِ سعودیہ میں عجوہ کھجور کی دستیابی کے بڑے مراکز مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، ہوائی اڈے، ساحل پر بنی استراحت گاہیں (Recreational Resorts) ہیں۔ ہوٹلوں میں بنی مارکیٹوں میں بھی عجوہ مل جاتی ہے۔ خوگرِ حمد مملکتِ سعودیہ کبھی یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہاں منافع فوری پر کوئی اخلاقی پابندی نہیں۔ میں تو ایک بال پوائنٹ جو یہاں 80 روپے میں خریدتا ہوں وہاں چار پانچ ریال میں خریدنے پر مجبور ہوتا ہوں۔ جب کہ والیٔ مملکتِ سعودیہ شاہ عبداللہ درآمدات پر اس لیے ٹیکس نہیں لگاتے تاکہ عام شہری کو دنیا بھر سے سستی اشیائے صرف ملتی رہیں۔ اس لیے کھجوروں کی فروخت پر کسی مارکیٹ کمیٹی کا متصرفانہ عمل دخل دکھائی دینا چاہیے۔
تاجرانِ کھجور اب جدید نفسیاتی طریقے جان گئے ہیں۔ وہ مختلف قسم کے خوبصورت ڈبوں میں ان کی فنی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر پیکنگ کرتے ہیں۔ کھجوروں کے جاذب نظر پیکٹ مختلف اوزان میں چاہت بھرے دلوں کی تمنا اور طلب کے خیال سے پیش کرتے ہیں۔
عموماً سعودی عرب میں 35 قسم کی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔ ان درختوں میں عجوہ کھجور کے پودے سب سے زیادہ لگائے اور پالے جاتے ہیں۔ مملکت سعودیہ کے باشندے کھجور خوری کی عادت میں بڑے شوق سے مبتلا ہیں۔ ان کے دستر خوان پر ہر طعام کے ساتھ کھجور کا ہونا ایک لازمی جزو ہوتا ہے۔ انہیں اس پھل کے فوائد کا خوب ادراک ہے۔ کھجور میں پانی برائے نام ہوتا ہے۔ سوکھ جانے پر بھی اس کے وزن اور خصوصیات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تاہم خشک کھجور میں وٹامن سی کچھ کم ہوجاتے ہیں۔ پانچ سات کھجوریں کھانے سے بیس کیلوریز حاصل ہوتی ہیں۔ اس میں نشاستہ، ریشہ دار اجزائ، پوٹاشیم، کیلشیم، فولاد کے ساتھ دیگر معدنیات اور حیاتین بھی پائے جاتے ہیں جو انسانی جسم کی نشوونما اور قوتِ مدافعت بڑھانے میں جادو اثر ثابت ہوئے ہیں۔ تازہ کھجور میں نرم، زود ہضم فروٹ شوگر اور گلوکوز جیسے خواص ہوتے ہیں۔ اس سے بدن کی صرف شدہ توانائی فوری بحال ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے افطار کے وقت کھجور قدیم زمانوں سے کھائی جارہی ہے۔ کھجورقبض کشا ہوتی ہے۔ یہ شاملِ خوراک ہوکر آنتوں میں جمع ہوجانے والے فضلات کو زیادہ دیر تک ٹھیرنے نہیںد یتی۔ اگر قبض رفع نہ ہو تو کینسر کی پیدائش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس پھل کے نامیاتی اجزا جسم کے مختلف حصوں کو نقصان دہ جراثیم سے بچاتے ہیں اور اندر ہی اندر خون رسنے سے روکتے ہیں۔ یہی تکلیف بڑھ کر خونیں بواسیرکی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔کھجور وٹامن اے کابھرپور خزانہ ہے۔ یہ بدن میں عمل تکسید کو روکتی ہے۔ جلد کے نیچے پتلے حصوں میں چپچپے مادہ کو صحت بخش رخ دینے میں کھجور کا کردار طبیبوں کو مطمئن رکھتا ہے۔ یہ ایسی خوراک ہے جو نظر کی کمزوری کو قریب نہیں آنے دیتی۔ بدن کے خوردبینی اجزا کو اپنے مفید افعال انجام دینے اور ان کی حفاظت کا ذریعہ بھی خالقِ کائنات نے کھجور کو بنادیا ہے، بلکہ اب تو تحقیق سے مزید ثابت ہوا کہ کھجور منہ، گلے اور پھیپھڑوں کے کینسر سے بھی محفوظ رکھتی ہے، بلکہ بدن میں عفونت اور گلنے سڑنے کا عمل بھی ختم کرنے میں کھجور ایک بڑی نعمت سے کم نہیں۔ لبلبہ سے حاصل ہونے والے خوراک کے ہاضم مادے کھجور کی تحریک کا حاصل ہوتے ہیں۔ خونِ صالح اور سرخ خلیات کی پیدائش اس جنتی میوہ کا ایک اور فائدہ ہے۔ اس میں موجود فولاد خون کی کمی کا ازالہ کرتا ہے۔ اسی سے خون کے ذرّوں تک آکسیجن کا سفر بہ سہولت ہونے لگتا ہے۔ یہ ایسی خوراک ہے جو فشارِ خون اور دل کی دھڑکن کو معتدل رکھتی ہے۔ کھجور میں موجود پوٹاشیم جسم کے خلیات اور مفید رطوبتوں کے لیے قدرت کا عطیہ ہے۔ یہی عنصر بدن میں پیدا ہوکر دل کے دورے کے لیے بھی ڈھال بن جاتا ہے۔ کھجور کھانے سے حیاتین بی اور کے انجمادِ خون روک دیتے ہیں۔ یہ خواص خطہ عرب کی آب و ہوا میں پلنے والی کھجور میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔
نشوونما کے دوران کھجور پر کئی احوال دیکھے جاسکتے ہیں۔ پہلی بار کھجور پیدا ہوتے ہی سخت ہوتی ہے۔ اس کا رنگ زرد ہوتا ہے۔ اسے ’’خلل‘‘ کہتے ہیں۔ چند دن بعد ہی پھل زرد اورہلکے سیاہ رنگ کا ہوجاتا ہے۔ یہ ’’مناصف‘‘ کہلاتا ہے۔ مزید ہفتے عشرے کے بعد کھجور کا دانہ مکمل طور پر پک کر سیاہ ہوجاتا ہے۔ اس کا نام ’’تمر‘‘ ہوجاتا ہے۔ ان حالتوں میں ذائقہ الگ الگ ہوتا ہے۔ کھجور کے پھل پر احوال ایک مہینے میں مکمل ہوجاتے ہیں۔
ماہِ رمضان شریف میں سعودی مملکت میں کھجور کے اسٹورز پر ہجوم ہوجاتا ہے، ہر شخص افطار میں کھجور ضرور استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہی پھل اس کی پہلی ترجیح ہوتا ہے۔ کھجور کے رسیلے اور نرم و نازک پھل کی محفوظ پیکنگ اس کے پتّوں کی ہلکی ٹوکریوں میں کی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اہلِ عرب کے متمول نوخیز نوجوان اب کھجور کے ’’عاشق‘‘ دکھائی نہیں دیتے، لیکن رمضان المبارک میں وہ بھی 5 ،7 ،9 کی تعداد میں افطار کھجور ہی سے کرتے ہیں۔ چند گھونٹ پانی پی کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے روزہ سنت کے مطابق افطار کیا ہے۔ ان کے بدن میں تازگی اور توانائی کھجور کھانے سے در آتی ہے اور وہ نماز کی طوالت میں دلی آمادگی کے ساتھ شریک ہونے کے لیے مستعد ہوجاتے ہیں۔
(جزوی استفادہ: سعودی عرب ایئر لائن کا ماہوار مجلہ: اھلاً و سھلاً بابت نومبر 2013ئ)
دانش یار
Dates nutrition facts and health benefits
0 Comments